کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک آدمی ٹرانسپورٹ کا کام کرتا ہے، لیکن ساتھ میں یہ کام بھی کرتا ہے، جیسا کہ کوئی گاڑی لینا چاہے، مگر اس کے پاس گاڑی کی پوری قیمت نہیں ہے،تو یہ آدمی باعتبار پارٹی یا آدمی کو اس طرح کے کام میں اس طرح کا لین دین کرتا ہے۔
جیسا کہ لینے والا گاڑی پسند کریں مارکیٹ میں، اور اس کی قیمت مثال کے طور پر 70لاکھ ہو، اور اس کے پاس آدھی رقم یا کم زیادہ ہو تو وہ اپنی پوری رقم اس کے یعنی اس آدمی کے اکاؤنٹ میں جمع کریں، اور دو دن بعد اس سے وہی گاڑی اس شرط پر خریدے کہ جو رقم اس کا استعمال ہوا، جیسا مثال کے طور پر 70لاکھ میں لینے والے نے 35لاکھ جمع کئے ہوتو 35 لاکھ کا اگر ایک لاکھ قسط ادا کریں تو %50 منافع اس کو دے گا، اور اگر 50ہزار قسط ماہانہ ادا کریں تو وہ آدمی 100فیصد یعنی روپے کے بدلے روپے لیتا ہے، اور لینے کی قسط میں اضافہ بھی اور تعاون بھی کرتا ہے، اور اس طرح کافی گاڑی لوگوں کو دیئے ہیں، یعنی یہ کوئی ایک یا دو گاڑی نہیں ، کیا یہ شریعت میں درست ہے،اور گاڑی بھی اس کے نام ہوگا، جب تک پوری قسط ادا نہ ہو۔
صورت مسئولہ میں جب گاڑی خریدنے والا شخص ٹرانسپورٹ والے کو گاڑی کی آدھی یا کم و زیادہ قیمت بھیج دیتا ہے، اور ٹرانسپورٹ والا بقیہ رقم ملاکر گاڑی خرید لیتا ہے، تو اب یہ گاڑی ان دونوں کے درمیان مشترکہ ہوگی، لہذا ٹرانسپورٹ والے شخص کا گاڑی کو صرف اپنی ملکیت و قبضہ میں لینا، اور صرف اپنے نام پر کرنا جائز نہیں ہے۔لما في التنوير مع الدر:’’(وهي ضربان: شركة ملك، وهي أن يملك متعدد) اثنان فأكثر (عينا)... (أو دينا)... (بإرث أو بيع أو غيرهما) بأي سبب كان جبريا أو اختياريا ولو متعاقبا، كما لو اشترى شيئا ثم أشرك فيه آخر‘‘.(كتاب الشركة: 6 /461،460، رشيدية)وفي الرد:’’قال في الولوالجية: رجل قال لغيره: ما اشتريت من شيء فهو بيني وبينك، أو اشتركا على أن ما اشتريا من تجارة فهو بيننا يجوز، ولا يحتاج فيه إلى بيان الصفة والقدر والوقت‘‘.(كتاب الشركة: 484/6، رشيدية)وفي الهندية:’’وشركة الاختيار أن يوهب لهما مال أو يملكا مالا باستيلاء أو يخلطا مالهما، كذا في الذخيرة، أو يملكا مالا بالشراء أو بالصدقة... ولا يجوز لأحدهما أن يتصرف في نصيب الآخر إلا بأمره، وكل واحد منهما كالأجنبي في نصيب صاحبه‘‘.(كتاب الشركة، الفصل الأول في بيان أنواع الشركة: 4 /32،31، رشيدية).فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 190/261