خوشی کے موقع پر دف بجانے کا حکم

خوشی کے موقع پر دف بجانے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ قبائلی علاقوں میں خوشی کے موقع پر یا کسی اہم بات کے طرف متوجہ کرنے کے لیے ڈھول (وہ ڈھول جو دو ہاتھوں سے مارا جاتا ہے) بجاتے ہیں (اور وہ ڈھول بالکل اسی طرح ہے جو کراچی کے چورنگیوں پر زرد رومال باندھ کر بجاتے ہیں) اور اس میں باجے نہیں ہوتے ہیں، ہاں! لوگ اس میں رقص کرتے ہیں اور اپنی طرف سے اشعار، گانے وغیرہ پڑھتے ہیں، کیا شریعت کی رو سے یہ جائز ہے یا نہیں؟ نیز شریعت میں جوطبل جائز ہے یہ اس کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ شریعت مطہرہ میں خوشی کے موقع پر ایسا دف بجانے کی گنجائش ہے جو ایک طرف سے بجایا جاتا ہو اور ساز سے بالکل خالی ہو، اور سوال میں ذکر کردہ صورت نا جائز ہے کیوں کہ یہ ساز گانے اور رقص پر مشتمل ہے اور یہ صورت دف کے تحت داخل نہیں ہے۔

لما فی المشکوٰۃ:

عن عائشة رضي الله عنها- قالت: قال رسول الله - صلي الله عليه وسلم - اعلنوا  بالنكاح .... واضربوا عليه بالدفوف. (باب ما جاء في أعلاه النكاح: ص: 344، رقم الحديث: 1088، 1089، دار السلام)

وفي المرقاة تحته:

وفيه دليل على جواز ضرب الدفِ عند النكاح والزفاف للإعلان وألحق بعضهم الختان والعيدين والقدوم من السفر ... وقال المراد به الدف كان في زمن المتقدمين. وأما ما عليه الجلاجل ينبغي أن يكون مكروهاً.(باب اعلان النكاح: 6/301، رشيدية)

وفي الشامية تحت هذا الحديث:

قال الفقهاء: المراد بالدف ما لا جلاجل له، وفي البحر عن الذخيرة: ضرب الدف في العرس مختلف فيه، وكذا اختلفوا في الغناء في العرس والوليمة فمنهم من قال: بعدم كراهته كضرب الدف.(كتاب النكاح، مطلب في إطلاق المستحب على السنة: 4/73، رشيدية).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتوی نمبر: 155/341