بغیر کسی وجہ کے علماء کو بُرا بھلا کہنا اور ایسے شخص کے ساتھ تعلق رکھنے کا حکم

بغیر کسی وجہ کے علماء کو بُرا بھلا کہنا اور ایسے شخص کے ساتھ تعلق رکھنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ:

محترم مفتی صاحب !ہم چند دوست ہیں جن میں سے ایک دوست علمائے کرام کو فحش اور نازیبا گالیاں دیتا ہے اور ان پر طنز اور مزاق کیا کرتا ہے، بطور خاص افغانستان کے ان علمائے کرام کو جو حال ہی میں اقتدار میں آئے ہیں، ان کے ساتھ ذاتی دشمنی نہ ہونے کے باوجود انہیں فحش گالیاں دیتا ہے اور وہاں کے اسلامی نظام کو برا بھلا کہتا ہے، دوستوں میں سے ایک دوست نے اس وجہ سے اس شخص سے تعلق ختم کردیا ہے، جب کہ دیگر دوست کہتے ہیں کہ ہمیں ان سے تعلق ختم نہیں کرنا چاہیے۔
سوال یہ ہے کہ ایسے شخص کے ساتھ معاشرتی تعلق ختم کرنا شرعا جائز ہے؟اور ایسے شخص کا شرعا حکم کیا ہے جو علمائے حق اور اسلامی نظام کو اعلانیہ گالیاں اور برا بھلا کہتا ہو؟
برائے کرم مدلل جواب دیجیے گا ۔جزاک اللہ خیرا واحسن الجزاء.

جواب

اللہ تعالی کے ہاں علمائے حق کا بہت بڑا مقام ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علماء کو انبیاء (علیہم السلام) کا وارث قرار دیا ہے، قرآن اور حدیث میں عالم کا مقام نمایاں ہے، صورت مسئولہ میں علمائے حق سے بلا وجہ بغض اور حسد رکھنا یقینا بہت بڑا جرم ہے، اگر کوئی شخص بلا کسی دنیوی واخروی سبب کے کسی عالم کی توہین کرتا ہے اور اُسے گالیاں دیتا ہے تو اس کا ایمان سلامت نہیں رہ سکتا۔
اگر دنیوی وجوہات کی وجہ سے توہین کرتا ہے، تو گناہ گار اور فاسق ہے اور بلا وجہ شرعی کوئی ایسی حرکت کرتا ہے اور قطع تعلق سے اس کی اصلاح کی توقع ہو ،تو قطع تعلق کردیا جائے۔
لما في التنزیل:
«قل ھل یستوي الذین یعلمون والذین لا یعلمون».(سورۃ الزمر،الآیۃ:٩)
وفي سنن أبي داود:
’’عن أبي الدرداء رضي اللہ عنہ قال: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول:وإن العلماء ورثۃ الأنبیاء‘‘.(کتاب العلم، باب في فضل العلم، رقم الحدیث: ٣٦٤١:دار السلام)
وفي مرقاۃ المفاتیح:
’’قال الخطابي: رخص للمسلم أن یغضب علی أخیہ ثلاث لیال لقلتہ، ولا یجوز فوقھا، إلا إذا کان الہجران في حق من حقوق اللہ تعالی، فیجوز فوق ذلک....... قال:وأجمع العلماء علی أن من خاف من مکالمۃ أحد وصلتہ ما یفسد علیہ دینہ أو یدخل مقبرۃ في دنیاہ، یجوز لہ مجانبتہ وبعدہ اھـ‘‘.(کتاب الآداب، باب ما ینھی عنہ من التھاجر والتقاطع واتباع العودات، الفصل الأول: ٨/ ٧٥٩، رقم الحدیث: ٥٠٢٧:رشیدیۃ)
وفي رد المحتار:
’’ذکر في شرحہ علی الملتقی أیضا أنہ لو علی وجہ المزاح یعزر، فلو بطریق الحقارۃ کفر؛ لأن إھانۃ أھل العلم کفر علی المختار‘‘.(کتاب الحدود، باب التعزیر، مطلب في الجرح والمجرّد، ٦/ ١١٥:رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:176/231