کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ میرے بہنوئی کا انتقال ہو گیا ہے، میری بہن عدت کا وقت پورا کرکے ہمارے گھر آئی، میں شادی شدہ اور بچوں والا ہوں، یہاں پر کچھ لوگوں نے اعتراض کیا ہے کہ تمہاری بہن کو عدت پوری کرکے تمہارے گھر یا ایسے گھر جو کہ شادی شدہ بچوں والا ہو ان کے گھر نہیں آنا چاہیے، بلکہ اس کو پہلے کسی بیوہ کے گھرجانا چاہیے،پھر وہ بچوں والے کے گھرآسکتی ہے ،کیا شریعت میں بیوہ کے لیے ایسی کوئی پابندی ہے ،جو اوپر ذکر کی گئی،براہ کرم قرآن وسنت کی روشنی میں تفصیل سے بتائیں۔
صورت مسؤلہ میں وہ عورت جس کےشوہر کا انتقال ہو گیا ہو، اس کی عدت چار ماہ دس دن ہے،عدت گزرنے کے بعدوہ عورت جس جگہ جانا چاہےجاسکتی ہے،شریعت میں اس پر کوئی پابندی نہیں ہے،صورت مسئولہ میں کہ”
عدت کے بعد پہلے فلاں کے گھر جانا چاہیے“
،یہ رسم بالکل فضول ہے، اس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہیں ہے۔
''وَالْمُتَوَفَّی عَنْہَا زَوْجُہَا تَخْرُجُ بِالنَّہَارِ لِحَاجَتِہَا إلَی نَفَقَتِہَا وَلَا تَبِیتُ إلَّا فِی بَیْتِ زَوْجِہَا فَظَاہِرُہُ أَنَّہَا لَوْ لَمْ تَکُنْ مُحْتَاجَۃً إلَی النَّفَقَۃِ لَا یُبَاحُ لَہَا الْخُرُوجُ نَہَارًا .''(البحرالرائق ٤/٢٥٩، باب العدۃ، رشیدیہ)
''(و) العدۃ (للموت أربعۃ أشہر) بالاہلۃ.....(وعشرۃ) من الایام بشرط بقاء النکاح صحیحا إلی الموت (مطلقا) .''(الدر المحتار ٣/٥١٠، باب العدۃ، سعید).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی