کسی عضو پر ایلفی لگ جائے تو وضو کا حکم

کسی عضو پر ایلفی لگ جائے تو وضو کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ کسی عضو پر ایلفی لگ جائے،  ایسا عضو کہ جس کو وضوء میں دھونا فرض ہے،وہ حصہ خشک رہے گا وضوء تو نہیں ہو گا،اب دریافت یہ کرنا ہے کہ جوآدمی ایلفی کا کاروبار کرتا ہے،مثلا: ٹوٹی اشیاء کی مرمت کرتا ہے،اسکے ہاتھوں پر اکثر ایلفی لگا ہوا  رہتا ہے،اس کا دور کرنا کبھی مشکل ہی  نہیں بلکہ ناممکن ہو تا ہے،ا ب اس صورت میں ان کے وضو کا کیا حکم ہے؟

جواب

جن اعضاء کا وضوء میں دھونا فرض ہے،ان اعضاء تک پانی پہنچانا ضروری ہے،البتہ کھال  پر ایسی چیز  لگی ہو جس کو چھڑانا مشکل ہو ، باوجود کوشش کے بھی مکمل طور  پرنہ چھوٹے،زیادہ کوشش کے نتیجے میں کھال  اترنے یازخم بننے کا اندیشہ ہو تو اس کو  چھڑائے بغیر بھی وضوء درست ہو گا،لہذا صورت مسئولہ میں ہاتھ کے ناخن پر ایلفی  لگی ہو  تو اسے  ہٹانا  بہرحال لازم ہے ،اس کے بغیر وضوء درست نہ ہو گا،اس لئے کہ ناخن سے ایلفی ہٹانے میں زخم کا اندیشہ نہیں اور اگر ایلفی کھال پر لگی ہو  تو  پہلے اتارنے کی مکمل  کوشش کی جائے ،کسی کیمیکل کے ذریعے اسے ہٹانا ممکن ہو تو اس کے ذریعے ہٹایا جائے،بہر صورت اسے اتارنے کی مکمل کوشش کی جائے،بالفرض  اگر اس کا  اتارنا ممکن نہ ہو توبوجہ مجبوری  ایلفی اتارے بغیر وضوء کر لینا درست ہے۔

لما في الهندية: 

وفي الجامع الصغير:سئل أبو القاسم :عن وافر الظفر الذي يبقى في اظفاره الدرن أو الذي يعمل عمل الطين أو المرأة التي صبغت اصبعها بالحناء أو الصرام أو الصباغ، قال: كل ذلك سواء يجزيهم وضوءهم إذ لا يستطاع الامتناع عنه إلا بحرج والفتوى على الجواز من غير فصل بين المدني والقروي، كذا في الذخيرة.(كتاب الطهارة،باب فرائض الوضوء:154،ط:دار الفكر)

وفي البحر الرائق:

والمراد بالأثر اللون والريح فإن شق إزالتهما سقطت وتفسير المشقة:أن يحتاج في إزالته إلى استعمال غير الماء كالصابون والأشنان أوالماء المغلي بالنار، كذا في السراج وظاهر ما في غاية البيان أنه يعفى عن الرائحة بعد زوال العين مطلقا وأما اللون فإن شق إزالته يعفي أيضا وإلا فلا.(كتاب الصلوة،باب الأنجاس:1249،ط: دار المعرفة بيروت ).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتویٰ نمبر: 175/150،154