چالیس سال سے کم عمر میں کالا کلر کرنے کی اجازت

چالیس سال سے کم عمر میں کالا کلر کرنے کی اجازت

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ آپ کا ایک فتویٰ دیکھا تھا جس میں مذکور تھا کہ:‘‘عورتوں کا بالوں پر کلر کرنا جائز ہے، البتہ کالے کلر سے اجتناب کیا جائے، لیکن اگر کوئی عورت اپنے شوہر کے لیے چالیس سے کم عمر میں کالا کلر کرتی ہے، تو اس کی گنجائش ہے’’۔
اب سوال یہ پوچھنا ہے کہ چالیس سال سے کم عمر میں کالا کلر کرنے کی اجازت کہاں دی گئی ہے؟حوالہ درکار ہے۔

جواب

عام حالات میں چالیس سال سے پہلے بالوں کا سفید ہونا کسی بیماری کی وجہ سے ہوتا ہے، جو نوجوانوں کے لیے عیب شمار ہوتا ہے اور علماء نے جوانی کی آخری حد چالیس سال لکھی ہے، چنانچہ علامہ آلوسی رحمہ اللہ کی تفسیر ’’روح المعانی‘‘ میں ہے: ’’وقال الزجاج مرۃ: بلوغ الأشد من نحو سبع عشرۃ سنۃ إلی الأربعین وأخریٰ: ھو ما بین الثلاثین إلی الأربعین واختارہ بعضھم ھنا وعلل بأن ذلک لموافقتہ لقولہٖ تعالٰی:حتی إذا بلغ أشدہ وبلغ أربعین سنۃ؛ لأنہ یشعر بأنہ منتہ إلی الأربعین‘‘، اس لیے فقہائے کرام نے ایسے نوجوانوں کو، جن کے بال جوانی میں سفید ہوگئے ہوں، دھوکہ دہی کی نیت کیے بغیر صرف ازالہ عیب کے ارادے سے کالے رنگ کا خضاب کرنے کی اجازت دی ہے، چنانچہ شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’أوجز المسالک‘‘ میں لکھا ہے: ’’أن الخضاب بالسواد المنھي عنہ خضاب التدلیس، فأما إذا لم یتضمن تدلیسا، ولاخداعا، فقد صح عن الحسن والحسین – رضي اللہ عنہما- أنہما کانا یخضبان بالسواد‘‘، اسی طرح حضرت نے ’’طبرانی‘‘ کی ایک روایت نقل کی ہے: ’’عن ابن شہاب : کنا نخضب بالسواد إذا کان الوجہ جدیدا، فلما نغض الوجہ والأسنان ترکناہ‘‘.
نیز مزید حوالہ جات کے لیے ’’أوجز المسالک‘‘ اور ’’زاد المعاد‘‘ وغیرہ کتب کا مطالعہ کرلیا جائے۔
لما في زاد المعاد:
’’فإن قیل: فقد ثبت في صحیح مسلم النھي عن الخضاب بالسواد..... الجواب الثاني: أن الخضاب بالسواد المنھي عنہ خضاب التدلیس کخضاب شعر الجاریۃ والمرأۃ الکبیرۃ تغر الزوج والسید بذلک وخضاب الشعر یغر المرأۃ بذلک فإنہ من الغش والخداع فأما إذا لم یتضمن تدلیسا ولا خداعا فقد صح عن – الحسن والحسین- رضي اللہ عنہما ، أنہما کانا یخضبان بالسواد‘‘. (حرف الکاف: 337/4، مؤسسۃ الرسالۃ بیروت)
وفي أوجز المسالک:
’’أن الخضاب بالسواد المنھي عنہ خضاب التدلیس، فأما إذا لم یتضمن تدلیسا، ولا خداعا، فقد صح عن الحسن والحسین – رضي اللہ عنہما- أنہما کانا یخضبان بالسواد‘‘. (کتاب الشعر، باب إصلاح الشعر، رقم الحدیث:1710، 46/17، دارالقلم)
وفي رد المحتار:
’’وفصل في المحیط بین الخضاب بالسواد قال عامۃ المشایخ أنہ مکروہ وبعضھم جوزہ مروي عن أبي یوسف‘‘. (کتاب الخنثی، مسائل شتیٰ: 523/10، رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:184/78