پیشاب کی نلکی لگائے ہوئے شخص کے وضو کا حکم

پیشاب کی نلکی لگائے ہوئے شخص کے وضو کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص شدید بیمار ہے، ڈاکٹروں نے بیت الخلاء جانے پر پابندی لگائی ہے اور پیشاب کے لیے نلکی لگائی ہوئی ہے، جس کے ذریعے تھیلی میں پیشاب جمع ہوتا ہے، تو معلوم یہ کرنا ہے کہ یہ پیشاب ناقض وضو کب بنے گا، جب وہ نکل کر نلکی میں آجائے (جب کہ نلکی میں تو وہ قطرے قطرے سے آتا رہتا ہے، اس کا ادراک بھی نہیں ہوتا) یا جب ہم مریض کے پیشاب کی تھیلی خالی کرتے ہیں، تب ناقض وضو ہوگا؟ اگر پہلی صورت کے وقت ناقض وضو ہوگا، تو کیا یہ مریض سلس البول کے حکم میں ہوگا اور اس کے لیے ہر نماز کے وقت وضو واجب ہوگا؟

جواب

صورت مسئولہ میں جب پیشاب نکل کر نلکی میں آجائے ،تو یہ ناقض وضو ہوگا، اور چوں کہ پیشاب نلکی میں تقریبا تسلسل کے ساتھ جاری رہتا ہے، لہذا یہ مریض سلسل البول کے حکم میں ہوگا اور اس کے لیے ہر نماز کے وقت وضو واجب ہوگا۔

لما في البدائع:
’’إذا ظھر شيء من البول والغائط علی رأس المخرج انتقضت الطھارۃ لوجود الحدث وھو خروج النجس، وھو انتقالہ من الباطن إلی الظاھر؛ لأن رأس المخرج عضو ظاھر، وإنما انتقلت النجاسۃ إلیہ من موضع آخر، فإن موضع البول المثانۃ، وموضع الغائط موضع في البطن یقال لہ: قولون، وسواء کان الخارج قلیلا أو کثیرا، سال عن رأس المخرج أو لم یسل لما قلنا‘‘.(کتاب الطھارۃ، فصل وأما بیان ما ینقض الوضوء..... إلخ، ١/ ٢٣٠: رشیدیۃ).
وفي الدر مع الرد:
’’ثم المراد بالخروج من السبیلین مجرد الظھور‘‘.
قولہ: (مجرد الظھور) فلو نزل البول إلي قصبۃ الذکر لا ینقص لعدم ظھورہ، بخلاف القلفۃ، فإنہ بنزولہ إلیہ ینقض الوضوء‘‘.(کتاب الطھارۃ، مطلب نواقض الوضوء، ١/ ٢٨٥: رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:174/10