کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ میں ایک مرکزی مسجد کا امام ہوں ،یہاں ہمارے علاقے میں ولیمہ پر نیوتہ(کھانے کے بعد لین دین ہماری زبان میں چومانہ بھی کہتے ہیں) لیا جاتا ہے، یعنی ولیمہ کھانے کے بعد لوگ کچھ رقم دیتے ہیں، جسے ولیمہ کرنے والا شخص کسی ذریعے سے بطور کرسی ٹیبل لگا کر کاپی قلم کے ذریعے محفوظ بھی کرواتا ہے، تو کیا اس ولیمہ میں میرے لیے جانا جائز ہے اور نکاح والے پروگرام میں مہندی وغیرہ کا بھی پروگرام ہوتا ہے، جس میں ناچ گانے بجائے جاتے ہیں ، تو میرے لیے کیا ایسی جگہ جاکر نکاح پڑھانا صحیح ہے؟
صورت مسئولہ میں آپ کے لیے ایسے پروگرام میں جانا جائز نہیں ہے، جہاں گانا ،باجا اور مہندی کی رسم یا دیگر بدعات کا ارتکاب ہو اور آپ روکنے پر قادر بھی نہ ہوں۔لما في الدر مع الرد:
’’(رجل ادعی إلی ولیمۃ، وثمۃ لعب، أو غناء قعد، وأکل) لو المنکر في المنزل، فلو علی العائدۃ لاینبغي أن یقعد بل یخرج معرضا، لقولہٖ تعالٰی:فلا تقعد بعد الذکریٰ مع القوم الظالمین، (فإن قدر علی المنع فعل، وإلا) یقدر (صبر إن لم یکن ممن یقتدی بہ، فإن کان) مقتدی (ولم یقدر علی المنع خرج ولم یقعد)؛ لأن فیہ شین الدین، والمحکي عن الإمام کان قبل أن یصیر مقتدی بہ (وإن علم أولا) باللعب (لایحضر أصلا) سواء کان ممن یقتدی بہ، أو لا؛ لأن حق الدعوۃ إنما یلزمہ بعد الحضور لا قبلہ ابن کمال.
وفي التاتارخانیۃ عن الینابیع: لو دعي إلی دعوۃ فالواجب الإجابۃ إن لم یکن ھناک معصیۃ، ولا بدعۃ، والامتناع أسلم في زماننا إلا إذا علم یقینا أن لابدعۃ، ولا معصیۃ ۱ھـ. والظاھر حملہ علی غیر الولیمۃ؛ لما مر ویأتي تأمل.
(قولہ: وثمۃ لعب) بکسر العین وسکونھا والغناء بالکسر ممدودا السماع، ومقصورا الیسار.
(قولہ: لاینبغي أن یقعد) أي یجب علیہ قال في الاختیار؛ لأن استماع اللھو حرام، والإجابۃ سنۃ، والامتناع عن الحرام أولی ۱ھـ. وکذا إذا کان علی المائدۃ قوم یغتابون لایقعد فالغیبۃ أشد من اللھو واللعب تتارخانیۃ‘‘. (کتاب الکراھیۃ:574/9، رشیدیۃ).
فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:178/317