معتکف کو چندہ جمع کر کے دینا

Darul Ifta

معتکف کو چندہ جمع کر کے دینا

سوال

کیا فرماتے ہیں علما ئے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ رمضان شرىف كے آخرى عشره مىں جو سنت مؤكده اعتكاف ہوتا ہے، ہمارے گاؤں میں عید الفطر کے دن لوگوں سے معتکف کے لیے چندہ جمع کیا جاتا ہے۔ اب اگر معتکف یہ پیسے نہ لے تو لوگ ناراض ہوجاتے ہیں کیا معتکف کے لیے یہ پیسے لینا صحیح ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ اعتکاف ایک عبادت ہے، اور عبادت پر اجرت وصول کرنا جائز نہیں، کیوں کہ اعتکاف سے صرف معتکف ہی  کو ثواب ملتا ہے، نیز اس معتکف کے لیے جو چندہ جمع کیا جاتا ہے، یہ کئی مفاسد پر مشتمل ہونے کی وجہ سے واجب الترک ہے، مثلاً:چندہ جمع کرتے وقت بعض لوگ اپنی خوشی سے چندہ نہیں دیتے، وہ محض شرم اور عار سے بچنے کے لیے دینے پر آمادہ ہوتے ہیں، جس میں طیب نفس شامل نہیں۔بعض لوگ ایسے بھی ہیں جن کے پاس پیسہ نہیں ہوتا وہ قرض لے کر معتکف کو دیتے ہیں۔ جو کہ ایک غلط رسم ہے۔
اور جو شخص چندہ دینے سے انکار کردے، تو لوگ اس کو طعن وتشنیع کا نشانہ بناتے ہیں، لہذا معتکف کے لئے ایسے چندے سے اجتناب کرنا چاہیے، اگر چہ لوگ ناراض ہوتے ہوں۔
وفي التنویر مع الدر:
(لاتصح الإجارۃ و)...لا لأجل الطاعات،مثل(الأذان والحج والإمامۃ وتعلیم القرآن والفقہ).
قال إبن عابدین رحمہ اللہ تعالیٰ:
قولہ: (ولا لأجل الطاعات) الأصل أن کل طاعۃ یختص بھا المسلم لایجوز الاستئجار علیھا عندنا...... ولأن القربۃ متی حصلت وقعت علی العامل،ولھذا تتعین أھلیتہ، فلایجوز لہ أخذ الأجرۃ من غیرہ کما في الصوم والصلوٰۃ.(کتاب الإجارۃ،مطلب الاستئجار علی الطاعات:۹۳/۹: رشیدیۃ).
وفي مشكوٰة المصابيح:
«عن أبي حرّة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:ألا! لا تظلموا ألا! لا يحل مال إمرئ إلا بطيب نفس منه».(باب الغصب والعارية، الفصل الثاني:١/٢٥٥:قديمى).فقط.واللہ اعلم بالصواب
126/295
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

footer