معتکف کا دوران اعتکاف موبائل کے ذریعے خرید وفروخت کرنا

Darul Ifta

معتکف کا دوران اعتکاف موبائل کے ذریعے خرید وفروخت کرنا

سوال

کیا فرماتے ہیں علما ئے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ معتکف کا موبائل فون کے ذریعے تجارتی خرید و فروخت کا معاملہ کرنا شرعی طور سے کیا حکم رکھتا ہے؟

جواب

معتکف کا مسجد میں ضروری خرید و فروخت کرنا درست ہے اور ضروریات زندگی کے لئے بھی خرید وفروخت کرنا جائز ہے۔ بشرطیکہ مسجد میں سامان نہ لایا جائے، البتہ تجارت یا مال جمع کرنے کی غرض سے مسجد میں خرید وفروخت کرنا مکروہ تحریمی ہے، اگر چہ مسجد میں سودانہ لایا جائے، لہذا معتکف کے لیے فی نفسہ بوقت ضرورت خرید وفروخت کی گنجائش ہے لیکن یہ عمل اعتکاف کی روح پرور مقصد کے خلاف ہے، اس لئے اس سے اجتناب کیا جائے۔
اگرکاروبار کرنا ضروری بھی ہو تو معتکف کسی کو اپنا وکیل بنائے، وکیل کاروبار کرے اور معتکف ہمہ تن اللہ تعالی کی عبادت میں مشغول رہے۔
’’(ولا بأس بأن يبيع ويبتاع في المسجد من غير أن يحضر السلعة) لأنه قد يحتاج إلى ذلك بأن لا يجد من يقوم بحاجته إلا أنهم قالوا يكره إحضار السلعة للبيع، والشراء لأن المسجد محرر عن حقوق العباد وفيه شغله بها‘‘.
قال في الفتح:’’أما إذا باع، أو اشترى لغير ذلك كالتجارة، أو استكثار الأمتعة فلا يجوز؛ لأن إباحته في المسجد للضرورة فلا يجوز مواضعها‘‘.(الهداية مع فتح القدير، كتاب الصوم، باب الاعتكاف ٢/٣٩٧:مصطفیٰ البابی الحلبي مصر)
’’وأطلق المبايعة فشملت ما إذا كانت للتجارة، وقيده في الذخيره بما لابد له منه كالطعام، أما إذا أراد أن يتخذ ذلك متجرا فإنه مكروه وإن لم يحضر السلعة، واختاره قاضيخان في فتاواه ورجحه الشارح، لأنه منقطع إلى الله تعالى، فلا ينبغي له أن يشتغل بأمور الدنيا‘‘. (البحرالرائق: کتاب الصوم،باب الاعتكاف: ٢/٥٣٠،رشيدية)
(وكذا في تبيين الحقائق: ٢/٢٢٩، ط: دار الكتب العلمية)
(وكذا في الرد مع الدر: ٢/٤٤٨، ط: سعيد).فقط.واللہ اعلم بالصواب

95/58
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

footer