کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ۱۔ ہمارے محلے کی مسجد میں وضوء کے لیے ایک حوض بنا ہوا ہے، مدرسے کے رہائشی بچے اپنے پاک اور نا پاک کپڑے حوض کے بالکل قریب دھوتے ہیں، کپڑے دھوتے وقت ان کی چھینٹیں وغیرہ پانی میں لا محالہ گرتے ہیں، اور گرتے ہوئے دیکھا بھی گیا ہے تو آیا اب اس پانی سے وضوء کرنا جائز ہے کہ نہیں؟
۲۔ اور اسی طرح حوض کے اطراق اکثر اوقات انہی کپڑوں کا بچا ہوا پانی پڑا رہتا ہے، جو کہ وضوء کرنے والوں کے پیروں میں لگ جاتا ہے اور پھر انہی پیروں کے ساتھ مسجد میں بھی داخل ہوا جاتا ہے، تو کیا اب مسجد کی زمین اور نمازی کے پیر پاک ہوسکتے ہیں؟
۱۔ صورت مسئولہ میں جب تک حوض میں یقینی طور پر نجاست گرنے کا یقین نہ ہو اس وقت تک حوض نا پاک نہیں ہوتا، لہٰذا وضوء کرنا جائز ہے۔
۲۔ صورت مسئولہ میں کپڑوں کا نجس ہونا جب تک یقینی نہ ہو، اس وقت تک پاوٴں اور مسجد کو ناپاک نہیں کہا جاسکتا ، لیکن اس سے بچنا بہتر ہے، نیز نا پاک کپڑوں کو وہاں دھونے سے اجتناب کیا جائے۔
لمافي البحر الرائق:
الثالث: أنهم قد صرحوا بأن الماء المستعمل على القول بطهارته إذا أختلط بالماء الطهور لا يخرجه عن الطهورية إلا إذا غلبه أوساوا. أما إذا كان مغلوبًا فلا يخرجه عن الطهورية فيجوز الوضوء بالكل ..... وقال في موضع آخر، ولو اختلط الماء المستعمل بالماء القليل قال بعضهم: لا يجوز التوضؤ به وإن قلَّ وهذا فاسد. أما عند محمد فلأنه طاهر لم يغلب على الماء المطلق فلا يغيره عن صفة الطهور كاللبن، وأما عندهما فلأن القليل لا يمكن التحرز عنه. ثم الكثير عند محمد ما يغلب على الماء المطلق، وعندهما أن يستبين مواضع القطرة في الإناء إھ ........ فإذا عرفت هذا لم تتأخر عن الحكم بصحة الوضوء من الفساقي الموضوعة في المدارس عند عدم غلبة الظن بغلبة الماء المستعمل أو وقوع نجاسته في الصغار منها. (كتاب الطهارة: 1/129، 130، رشيدية)
وفي الفتاوى النوازل:
غسالة الأعيان الطاهرة طاهرة، وغسالة الأعيان النجسة نجسة، وكذا ماء الاستنجاء إلى الثلاث وما بعده مستعمل، ..... وقيل: إن أصاب من الأولى لا يطهر إلا بغسل الثلاث، ومن الثانية بمرتين، ومن الثالثة بمرة وهو الصحيح، وكذا لحكم في إصابة غسالة الثوب النجس. (كتاب الطهارة، فصل في الماء المستعمل، ص: 46، مكتبة إسلامية كوئته).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر : 154/106،109