کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ تبلیغی جماعت کے لوگ بعض اوقات اپنے محرم کے ساتھ مستورات کے جماعتوں کو نکالتے ہیں اور کسی دوسرے گھر میں ایک با پردہ کمرے میں ان کو ٹھہرایا جاتا ہے اور اسی گھر میں ۸ سال سے زیادہ عمر کا بچہ بھی نہیں جائے گا، تو ان پر ان علماء کا یہ اعتراض ہے کہ یہ عمل نہ تو صحابہ نے کیا ہے اور نہ تبع تابعین نے کیا ہے؟ تو کیا رائیونڈ کے شرائط کے ساتھ دین کے سیکھنے اور پھیلانے کے لیے مستورات کا ایسا نکلنا اپنے علاقے یا دوسرے علاقے میں جانا جائز ہے یا نا جائز، وضاحت فرمائیں۔
مستورات میں دین سے بے پرواہی عام ہے، اس لیے عورتوں کی دین سے دوری ان کی اپنی ذات تک محدود نہیں رہتی، بلکہ اس سے آئندہ نسلیں بھی متأثر ہوتی ہیں، اسی بناء پر ہر دور میں مصلحین امت عورتوں کی اصلاح کے لیے بطور خاص فکر مند رہے ہیں، چناں چہ حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی قدس اللہ سرہ ”بہشتی زیور“ کے دیباچے میں تحریر فرماتے ہیں:
”حقیر نا چیز اشرف علی تھانوی حنفی مظہر مدعا ہے کہ ایک مدت سے ہندوستان کی عورتوں کے دین کی تباہی دیکھ دیکھ کر دل دکھتا تھا اور اس کے علاج کی فکر میں رہتا تھا، اور زیادہ وجہ فکر یہ تھی کہ یہ تباہی صرف ان کی دین تک محدود نہیں تھی، بلکہ دین سے گذر کر ان کی دنیا تک پہنچ گئی تھی، اور ان کی ذات سے گزر کر ان کے بچوں، بلکہ بہت سے آثار سے ان کے شوہروں تک اثر کر گئی تھی، اور جس رفتار سے یہ تباہی بڑھتی جاتی تھی، اس کے اندازہ سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ اگر چند دن اور اصلاح نہ کی جائے تو شاید یہ مرض قریب قریب لا علاج ہوجائے، اس لیے مصلحین امت کو اس معاملے میں مزید فکر مندی کی ضرورت ہے، کہ عورتوں کی اصلاح کے لیے تدبیریں اختیار کی جائیں“ (دیباچہ قدیمہ، ص: ۲، امدادیہ)
حضرت حکیم الامت رحمہ اللہ نے اس مرض غفلت کا یہ علاج تجویز فرمایا تھا کہ مستورات کی دینی تعلیم کا انتظام کیا جائے اور ان کو مسائل شرعیہ سے آگاہ کرنے کا اہتمام کیا جائے، اور حضرت نے ”بہشتی زیور“ لکھوا کر عورتوں کے لیے ضروری مسائل کا مکمل نصاب مدون کرا دیا تھا، لیکن افسوس ہے کہ غفلت یہاں تک بڑھ گئی کہ مسلمان اس نسخہ شفاء کو استعمال کرنے کے بھی روادار نہیں، اس لیے ضرورت محسوس ہوئی کہ مسلمانوں کو اس علاج کی طرف متوجہ کرنے کے لیے مستورات کے حلقوں میں بھی دین کی دعوت کو رواج دیا جائے، چناں چہ اکابر نے اس پر طویل غور وفکر کیا، علماء وصلحاء سے مشورے ہوئے اور طویل مشاورت کے بعد اس کے لیے ایک خاص انتظام تشکیل دیا گیا، مستورات کی جماعتوں کے نکلنے کا مفہوم عام طور سے یہ سمجھا جاتا تھا کہ یہ مستورات بھی خدا نخواستہ گلیوں، بازاروں کا گشت کرتی ہوں گی، حالاں کہ یہ قطعاً خلاف واقع ہے، بلکہ مستورات کی جماعتوں کے لیے خاص قیود اور سخت شرطیں مقرر کی گئی ہیں، رہی بات یہ کہ کسی عورت کا اپنے گھر سے نکلنا یا باقاعدہ سفر کرنا کیسا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ عورت اپنے محرم کے ساتھ اس غرض ومقصد کے لیے نکلتی ہے کہ دین اسلام کے احکامات پر عمل کرنے کا جذبہ وشوق بیدار ہو ایمان ویقین کی باتیں بار بار سننے سنانے سے دل میں راسخ ہوں، دوسروں سے اپنی ذات کو فائدہ پہنچانا مطلوب ہو اور اپنی ذات سے دیگر مسلمانوں خواتین بہنوں کو فائدہ دینیہ پہنچانا مقصود ہو اور اس مقصد کے لیے اپنا مال وقت خرچ کریں تو ایسی عورت کا گھر سے نکلنا اور باقاعدہ سفر کرنا جائز ہے، البتہ مندرجہ ذیل شرائط کی رعایت رکھنا ضروری اور لازم ہے:
۱۔ شوہر یا محرم کے ساتھ سفر کریں۔
۲۔ اگر شوہر کے علاوہ کسی محرم کے ساتھ سفر کریں تو شوہر کی اجازت اور رضا مندی ہو۔
۳۔ غیر محرم کے ساتھ اختلاط بالکل نہ ہو۔
۴۔ شرعی پردہ کا مکمل اہتمام ہو۔
۵۔ ان کے تبلیغ میں نکلنے سے گھریلو امور، مثلا: تربیت اولاد اور حقوق زوجین میں سے کسی کا کوئی حق تلف نہ ہو۔
۶۔ جس گھر میں جماعت قیام کرے، وہاں پردے کا مکمل انتظام ہو، غیر مردوں کا عمل دخل نہ ہو۔
۷۔ اعمال (تعلیم، بیان، مذاکرہ وغیرہ) کی آواز غیر محرم نہ سنے۔
۸۔ عورتیں بن سنور کر اور زیب وزینت اختیار کر کے نہ جائیں۔
۹۔ کسی فتنہ کا اندیشہ نہ ہو۔
۱۰۔ دوران خروج غیر شرعی باتوں کا تذکرہ نہ ہو۔مذکورہ بالا شرائط کی رعایت کرتے ہوئے عورت کا تبلیغ میں نکلنا جائز ہے۔
لمافي النهر الفائق:
وحيث أبحنا الخروج فإنما يباح بشرط عدم الزينة وتغيير الهيئة على ما لا يكون داعية لنظر الرجال والاستمالة. (كتاب الطلاق، باب النفقة: 2/516، رشيدية)
وفي روح المعاني:
وأجيب بأن الأمير بالاستقرار في البيوت والنهي عن الخروج ليس مطلقًا وإلا لما أخرجهن صلى الله تعالى عليه وسلم بعد نزول الآية للحج والعمرة ولما ذهب بهن في الغزوات ولما رخص لهن لزيارة الوالدين وعيادة المرضى وتعزية الأقارب وقد وقع كل ذلك كما تشهد به ... وقد جاء في الحديث الصحيح أنه عليه الصلاة والسلام قال لهن بعد نزول الآية: أذن لكن أن تخرجن لحاجتكن فعلم أن المراد الأمر بالاستقرار الذي يحصل به وقارهن وامتيازهن على سائر النساء بأن يلازمن البيوت في أغلب أوقاتهن ولا يكن خراجات ولاجت طوافات في الطريق والأسواق وبيوت الناس وهذا لا ينافي خروجهن للحج أو لما فيه مصلحة دينية مع التستر وعدم الابتذال. (سورة الأحزاب، مبحث في تفسير قوله تعالى: ﴿وقرن في بيوتكن﴾. 9/22، دار إحياء التراث العربي)
وفي التنوير مع الدر:
(لا انتفاع به مطلقا) لا باستخدام ولا سكنى ولا لبس ولا إجارة ولا إعارة، سواء كان من مرتهن أو راهن (إلا بإذن) كل للآخر، وقيل: لا يحل للمرتهن لأنه ربا، وقيل: إن شرطه كان ربا، وإلا لا. (كتاب الرهن: 10/86، رشيدية).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر : 172/148،155