مروجہ قضائے عمری کی شرعی حیثیت

مروجہ قضائے عمری کی شرعی حیثیت

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ عرض یہ ہے کہ مورخہ٢٢/جنوری١٩٩٨ء کو روزنامہ مشرق میں قضائے عمری کے بارے میں دو تفصیلی اور مدلل مضامین شائع ہوئے ہیں، جب کہ ابھی تک اس کےجواب میں کسی نے متعلقہ اخبار میں اس پر لب کشائی نہیں کی، ہمارے تمام حضرات کا خیال تھا کہ یہ ایک مکروہ عمل اور بدعت ہے، لیکن مذکورہ اخبار میں انتہائی مستند کتب مثلاً فتاوی عالم گیری وفتاوی قاضی خان وغیرہ کے حوالے دیے گئے ہیں، جس سے ہمارے پرانے خیالات متزلزل ہو گئے ہیں، آپ صاحبان قضائے عمری کے بارے میں قرآن وسنت کی روشنی میں فتویٰ صادر فرمائیے، علاوہ ازیں مضمون نگار نے جن کتب کے حوالے دیے ہیں تو اس کے بارے میں بھی لکھیں کہ و اقعی ان کتب میں قضائے عمر ی کرنے کی تاکید ہے یانہیں؟تحقیقی جواب ارسال کریں اﷲ تعالیٰ آپ کو اجر عظیم دے؟

جواب

رمضان المبارک کے آخری جمعہ میں لوگوں نے کچھ ایسی بدعات ایجاد کی ہیں ،جن کا کوئی ثبوت شریعت اسلامیہ میں نہیں، ان بدعات میں سے ایک بدعت مروجہ قضائے عمری کی ہے اور ان کے اس بارے میں طریقے بھی مختلف ہیں اور نظریات بھی علیٰحدہ ہیں، اس مروجہ قضائے عمری میں کئی خرابیاں ہیں:

۱۔ پہلی خرابی یہ ہے کہ قضائے عمری کی امید پر جان بوجھ کر نمازیں قضا کی جاتی ہیں اور یہ بہت ہی قبیح بات ہے، کیوں کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم  سےمنقول ہے کہ آدمی اور کفر میں فاصلہ کرنے والی چیز نماز کا چھوڑنا ہے اور مسلم کی روایت میں ہے کہ ” کفر اور آدمی کے درمیان نماز کا چھوڑنا ہے ( یعنی نماز چھوڑنے والا کفر کی جانب اور نماز پڑھنے والا ایمان کی جانب ہو گا۔)

۲۔ دوسری خرابی یہ ہےکہ ان لوگوں کا یہ اعتقاد ہے کہ چوں کہ رمضان المبارک کی نماز غیر رمضان کی نماز پر فضیلت رکھتی ہے اور بہت سی نمازوں کے برابر ہوتی ہے ،اس لیے رمضان المبارک کی ایک نماز ستر نمازوں کی جگہ کافی ہے،حالاں کہ یہ بالکل درست نہیں، فتاوی بزاریہ میں ہے:”کہ کوئی شخص صرف رمضان المبارک میں نماز پڑھتا ہے، اس کے علاوہ نہیں پڑھتا او رکہتا ہے کہ یہی بہت ہے،یا کہتا ہے کہ رمضان میں ایک نماز ستر نمازوں کے برابر ہوتی ہے، لہٰذا باقی دنوں میں نمازوں کی ضرورت نہیں تو ایسا شخص کافر ہو جاتا ہے۔

۳۔ تیسری خرابی یہ ہے کہ ایک نماز یا پانچ نمازوں کو عمر بھر کی فوت شدہ نمازوں کی قضا کے لیے کافی سمجھنا یہ ایسی بات ہے، جس کی مثال شریعت میں نہیں ملتی، کیوں کہ شریعت میں کوئی عبادت ایسی نہیں ہے، جو کئی عبادات کے قائم مقام ہو اور ان کی جانب سے کافی ہو ۔

۴۔ چوتھی خرابی یہ ہے کہ ان لوگوں کا یہ خیال ہے کہ بے شک نماز ( قضائے عمری) آباء واجداد اور اولاد اور رشتے داروں کی فوت شدہ نمازوں کا کفارہ بھی بن جاتی ہے ،حالاں کہ یہ صحیح نہیں ہے۔

۵۔ پانچویں خرابی یہ ہے کہ ان حضرات کا اس نماز کو مسجد میں ادا کرنا حالاں کہ یہ ان کے نزدیک تمام فوت شدہ نمازوں کی قضاء ہے، یہ درست نہیں، اس لیے کہ البحرالرائق میں ہے کہ ”جب نماز اپنے اصل وقت سے فوت ہو جائے تو مناسب یہ ہے کہ اس کی قضا اپنے گھر کرے مسجد میں نہ کرے۔

۶۔ چھٹی خرابی یہ ہے کہ لوگوں کو بلا کراس کو جماعت کے ساتھ ادا کرتے ہیں ، حالاں کہ اس کو نفل بھی سمجھتے ہیں، یہ بھی درست نہیں اس لیے کہ لوگوں کو بلا کر نفل جماعت کے ساتھ ادا کرنے کے مکروہ ہونے پر فقہاء کرام صراحت موجود ہے،ان وجوہات کی بنا پر مروجہ قضائے عمری بدعت قبیحہ او رناجائز ہے، اگر کسی آدمی کے ذمے فوت شدہ نمازیں ہوں تو ان کی قضاء لازم ہے، اور جتنی نمازیں قضا ہوئی ہیں،ان تمام نمازوں کی قضا ضروری ہے ،نہ یہ کہ ایک نماز پڑھنے سے سب کی قضا ہوجائے گی، اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ہر دن ایک نماز کے ساتھ ایک فوت شدہ نماز ادا کی جائے مثلاً :فجر کے ساتھ فوت شدہ فجر اور ظہر کے بعد فوت شدہ ظہر کی اور اسی طرح باقی نمازوں میں، یا یہ کہ ایک ہی وقت میں کئی دنوں کی فوت شدہ نمازیں بھی پڑھ سکتا ہے او راگر کسی شخص کی کئی دنوں کی نمازیں فوت ہوچکی ہوں اور اس کو دن وتاریخ یاد ہو تو تعین کرکے ان کو پڑھے، یعنی اس طرح کہے کہ فلاں سال فلاں تاریخ کی فجر کی نماز پڑھتا ہوں، جو قضاء کی صورت میں میرے ذمے ہے او راگر اس کو تاریخ وغیرہ یاد نہ ہو، یا نمازیں اتنی کثرت سے ہوں کہ و ہ حتمی فیصلہ نہ کرسکے کہ کتنی ہیں؟ تو پہلے ان کا محتاط اندازہ لگالے کہ کتنی ہوں گی اور پھر قضا نمازیں تخمینہ کے مطابق اس طرح مکمل کرے کہ مثلاً یوں کہے کہ فجر کی پہلی نماز جو میرے ذمے ہے وہ پڑھتا ہوں، پھر اسی طرح ظہر اور باقی نمازوں کو پڑھے او رہر نماز کے ساتھ جو پہلی نماز میرے ذمے ہے یہ نیت کرکے پڑھتا رہے، یہاں تک کہ جو تخمیہ اس نے لگایا تھا اس کے مطابق اس کی قضا نمازیں مکمل ہو جائیںاور ان نمازوں میں تاخیر کرنے کے گناہ کی اﷲتعالیٰ سے معافی مانگے۔

صاحب مضمون نے جن فقہی کتابوں کا حوالہ پیش کیا ہے، ان میں مروجہ قضائے عمری کا ثبوت نہیں ہے ، بلکہ اس سے مراد وہ قضاء ہے جس کو ہم نے اوپر ذکر کیاہے کہ اگر کسی شخص کی کئی دنوں کی نمازیں فوت ہوچکی ہوں تو وہ فوت شدہ نمازوں کو اسی طریقے سے قضاءکرے جس طرح سے وہ فوت ہوئی ہیں، نہ کہ وہ رمضان کے آخری جمعہ یا آخری عشرہ  میں مروجہ قضائے عمر ی کا اہتمام کرے،یہ سمجھ کر کہ  ساری کی ساری فوت شدہ نمازوں کی قضاء ہو گئی ہے، صاحب مضمون کو ان عبارت سے دھوکہ لگ گیا ہے،بجائے اصل حقیقت کو لکھنے کے ایک بدعت اور ناجائز عمل کو رواج دینے او راسے ثابت کرنے پر زور لگارہے ہیں،یہ حق سے دوری اور کتب حدیث وفقہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے۔

''اعلم أنھم قد أحد ثوافی آخر جمعۃ شھر رمضان أموراً مما لا أصل لھا، التزموا أموراً لا أصل للزومھا۔۔۔۔۔ فمنھا: القضاء العمری حدث ذلک فی بلادخراسان و أطرافھا، وبعض بلاد الیمن واکنافھا، ولھم فی ذلک طرق مختلفۃ ومسالک متشنۃ: فمنھم من یصلی فی آخر جمعۃ رمضان خمس صلوات قضائً بأذان وإقامۃ مع الجماعۃ، ویجھرون فی الجھریۃ، ویرون فی السریۃ وینوون لھا بقولھم: نویت أن أصلی اربع رکعات مفروضۃ قضاء لما فات من الصلوات فی تمام العمر مما مضی، و یعتقدون أنھا کفارۃ لجیمع الصلوات الفائتۃ فما مضٰی. (مجموعۃ رسائل للکنوی، رسالہ، ردع الإخوان عن محدثات آخر جمعۃ رمضان:٢/٣٤٩، إدارۃ القرآن، کراچی)

''عَنْ أَبِی سُفْیَانَ قَالَ سَمِعْتُ جَابِرًا یَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ إِنَّ بَیْنَ الرَّجُلِ وَبَیْنَ الشِّرْکِ وَالْکُفْرِ تَرْکَ الصَّلَاۃِ.''( الصحیح لمسلم ١/٦١، باب بیان اسم الکفر علی من ترک الصلوٰۃ، کتاب الإیمان، قدیمی)

''حدیث من قضی صلوٰۃ من الفرائض فی آخر جمعۃ من رمضان کان جابراً لکل صلوٰۃ فائتۃ فی عمرہ إلی سبعین سنۃ باطل قطعالا أصل لہ؛ لأنہ مناقض للاجماع علی أن شیأا من العبادات لا یقوم مقام فائتۃٍ سنوات.'' (موضوعات کبری لملاعلی القاری، حرف المیم،٢٤٢٠، قدیمی).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی