کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس بارے میں کہ ۱۔ ذہنی ورزش کرنے کے لیے کچھ وقت بلیئرڈ، لو ڈو، اسنوکر، ویڈیو گیمز اور کیرم بورڈ کھیلنا کیسا ہے؟ نیز ممنوعات سے پرہیز کی صورت میں کیا حکم ہے؟
۲۔ جسمانی ورزش کے لیے ممنوعات سے بچتے ہوئے کچھ وقت کرکٹ، ہاکی، فٹ بال، لان ٹینس، بیڈ منٹن، ٹیبل ٹینس، اور والی بال کھیلنا کیسا ہے؟
واضح رہے کہ کھیلوں کی مختلف اقسام ہیں، اور ہر ایک کا حکم الگ ہے:
۱۔ وہ کھیل جن کی اجازت اور ترغیب نصوص میں مصرح ہے، مثلاً گھوڑ دوڑ، تیر اندازی اور تیراکی وغیرہ، ان کا کھیلنا جائز بلکہ مستحسن ہے، بشرطے کہ ممنوع شرعی کا ارتکاب لازم نہ آئے، اور مقصد صرف لہو ولعب نہ ہو۔
۲۔ وہ کھیل جن کی ممانعت کی نصوص میں تصریح آئی ہے، مثلا شطرنج اور نرد شیر وغیرہ، یا وہ سراسر معصیت پر مشتمل ہوں، مثلا مزدو زن کی مخلوط ریس وغیرہ ان کا کھیلنا مطلقا نا جائز ہے، خواہ کوئی مقصد بھی پیش نظر ہو۔
۳۔ وہ کھیل جن کی ممانعت یا جواز کی تصریح نصوص میں مذکور نہیں، اور نہ ہی وہ سراسر معصیت ہیں، ان میں قدرے تفصیل ہے: وہ یہ کہ اگر ان میں صرف ذہنی ورزن ہو تو ان کا کھیلنا نا جائز ہے، کیوں کہ ذہنی ورزش در حقیقت تفکر بے مقصد ہے، جو نعمت فکر کو بے محل صرف کرنے کی وجہ سے تبذیر، دل ودماغ کے مقاصدِ اصلیہ کی تحصیل میں سخت مضر، اور اس میں مکمل انہماک ہونے کی وجہ سے مشاغل دینیہ اور دنیویہ کا نقصان عظیم ہے، جب کہ بعض علماء نے ذہنی ورزش کے کھیل کو جائز بھی قرار دیا ہے، احتیاط نہ کھیلنے ہی میں ہے۔
اور اگر ان میں جسمانی ورزش ہو، یا دل و دماغ کی تفریح ہو، یا اور کسی فرضِ صحیح پر مشتمل ہوں، تو ان کا کھیلنا جائز ہے، بلکہ اگر مقصد اعلی ہوگا تو ثواب بھی ملے گا، جیسے جہاد کی تیاری کی نیت سے کراٹے وغیرہ کھیلنا۔
لیکن یاد رہے کہ یہ کھیل کسی عارض کی وجہ سے نا جائز بھی ہوسکتے ہیں، مثلا اس میں مشغولیت فرائض اور حقوق واجبہ کے ترک کا سبب بنے، یا اس میں ہار جیت پر مال کی شرط ہو، یا اس میں ممنوع شرعی کا ارتکاب لازم آئے، یا وہ کھیل کفار یا فساق کا شعار بن جائے، یا اس سے کفار یا فساق کے ساتھ تشبہ کی رغبت پیدا ہو، اور ان کا تشبہ معیوب نہ رہے، یا اس سے کفار وفساق سے اختلاط نا گریز ہو، یا مقصد صرف لہو ولعب اور وقت گزاری ہو، پھر عارض جس قدر غلط ہوگا کھیل کا حکم بھی اسی قدر سخت ہوجائے گا۔
مذکورہ بالا تفصیل کے پیش نظر بلیئرڈ، لو ڈو، اسنوکر، ویڈیو گیمز اور کیرم بورڈ میں چوں کہ محض دماغی تفریح ہوتی ہے نہ کہ ذہنی ورزش، لہٰذا فی نفسہ یہ کھیل جائز ہیں، مگر چوں کہ ان کے کھیلنے کی جگہوں میں مذکورہ مفاسد میں سے اکثر یا بعض پائے جاتے ہیں، لہٰذا ان کا کھیلنا جائز نہ ہوگا، البتہ اگر گھر میں انہیں کبھی کبھار محض تفریح کے لیے کھیلا جائے اور کوئی مفسدہ دنیویہ یا شرعیہ نہ ہو تو جائز ہے، کرکٹ، فٹبال اور ٹینس وغیرہ (جسمانی ورزش کے کھیلوں) کا بھی یہی حکم ہے۔
تنبیہ:
عصر حاضر میں کرکٹ جیسے لغو کھیل میں مسلمان نوجوانوں کی دلچسپی انتہائی مضر ثابت ہو رہی ہے، اس میں قومی ٹیم کی فتح وشکست کو اسلام کی فتح وشکست سمجھا جا رہا ہے، حالاں کہ مسلمانوں کی عزت ووقار اور حقیقی کامیابی اللہ اور اس کے رسول کے احکام پر چلنے میں ہے، یہ اعداء اسلام کی گھناوٴنی سازش ہے کہ مسلمانوں کو اس جیسے لا یعنی کاموں میں مصروف رکھا جائے، تا کہ وہ اپنے مقاصد اصلیہ سے غافل ہو کر رہ جائیں۔
لہٰذا ضرورت ہے کہ ہر شخص اس کھیل کی بقدر استطاعت حوصلہ شکنی کرے اور مسلمان نسل کو اس سازش کا شکار ہونے سے بچائے، خاص طور طلباء اور دیندار طبقہ کے لیے یہ کھیل کسی بھی صورت درست نہیں۔
قال العلامة محمد شفیع العثماني:"وفذلكه الكلام: أن اللهو على أنواع: لهو مجرد، ولهو فيه نفع وفائدة، ولكن ورد الشرع بالنهي عنه، ولهو فيه فائدة ولم يرد في الشرع نهي صريح عنه، ولكنه ثبت بالتجربة أنه يكون ضرره أعظم من نفعه ملتحق بالنهي عنه، ولهو فيه فائدة ولم يرد الشرع بتحريمه، ولم يغلب على نفعه ضرره، ولكن يشتغل فيه بقصد التلهي، ولهو فيه فائدة مقصودة ولم يرد الشرع بتحريمه، وليس فيه مفسدة دينية، واشتغل به على غرض صحيح لتحصيل الفائدة المطلوبة لا بقصد التلهي".
فهذه خمسة أنواع لا جائز فيها إلا الأخير الخامس، فهو أيضًا ليس من إباحة اللهو في شيء، بل إباحة ما كان لهوًا صورة، ثم خرج عن اللهوية بقصد صالح وغرض صحيح فلم يبق لهوًا".(أحكام القرآن، الناهي عن الملاهي: 3/201، إدارة القرآن والعلوم الإسلامية).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 76/476