قضائے حاجت کے لیے جانے سے اعتکاف فاسد نہیں ہوگا۔

 

 

Darul Ifta

قضائے حاجت کے لیے جانے سے اعتکاف فاسد نہیں ہوگا

سوال

کیا فرماتے ہیں علما ئے کرام درج ذیل مسائل کے بارے میں کہ:
۱……قضاءحاجت ىعنى پىشاب كے لىے باتھ روم جانا، اور وہاں فراغت کے بعد تھوڑی دیر بیٹھ کر انتظار کرنا کہ قطرے نکل جائیں، اور اسی طرح اگر قبض کا مسئلہ ہو تو اس میں تھوڑی دیر انتظار کرنا،مفسد اعتکاف ہے یا نہیں؟
۲……اسی طرح فراغت کے بعد ازار بند باندھنا، اسی طرح باہر نکل کو باتھ روم کی چپل اتارنا،یا جاتے ہوئے بیت الخلاء کی چپل پہننا  (جو کہ رک کر ہی پہنی جا سکتی ہے) یہ مفسد اعتکاف ہے یا نہیں؟ کیوں کہ بلا ضرورت ایک لمحہ بھی حدود مسجد سے باہر مفسد اعتکاف ہے۔
۳……مجھے قطروں کا وہم ہوتا ہے، اس لیے میں باتھ روم جا کر چار یا پانچ مرتبہ تھوڑی اٹھک بیٹھک کرتا ہوں ،تاکہ پیشاب کے قطرے نکل جائیں، تو یہ مفسد اعتکاف ہے یا نہیں؟

جواب

سوال میں مذکورہ امور میں سے کوئی امر بھی مفسد اعتکاف نہیں، مسجد سے نکلنا اس وقت مفسد اعتکاف ہوتا ہے، جبکہ وہ انسان کی طبعی یا شرعی ضرورت کے علاوہ ہو، جب کہ مذکورہ بالا امور انسان کی طبعی ضرورت کی تکمیل کے لیے ہی ہیں،لہٰذا اس سے اعتکاف فاسد نہیں ہوتا۔
لما في الدر مع الرد:
‘‘(وحرم عليه…… الخروج إلا لحاجة الإنسان) طبيعية كبول وغائط وغسل لو احتلم… إلخ‘‘.
وقال ابن عابدين رحمه الله:
’’قوله: (وغسل) عده من الطبيعية تبعا للاختيار والنهر وغيرهما.…… وعن هذا اعترض بعض الشراح تفسير الكنز لها بالبول والغائط بأن الأولى تفسيرها بالطهارة ومقدماتها ليدخل الاستنجاء والوضوء والغسل لمشاركتها لهما في الاحتياج وعدم الجواز في المسجد‘‘. (كتاب الصوم، باب الاعتكاف: ٣/٥٠١: رشيدية).فقط.واللہ اعلم بالصواب.

118/292
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

footer