کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ مدرسے کی طرف سے جو اوقات مطالعہ اور تکرار کے لیے مقرر ہیں، ان اوقات میں کسی طالب علم کا قرآن مجید کی تلاوت کرنا درست ہے یا نہیں؟ یا اس طالب علم کا یہ عمل اساتذہ کو دھوکہ دینے میں داخل ہے یا نہیں؟ اور نگران استاد اس طالب علم کو قرآن کی تلاوت سے منع کرے تو اس استاد پر بھی کوئی گناہ ہے یا نہیں؟راہنمائی فرمائیں۔
واضح رہے کہ مدرسے کے ضابطے کے مطابق جو اوقات مطالعہ اور تکرار کے، طالب علم کے لیے مقرر کیے جاتے ہیں ان اوقات میں درسی کتب کا مطالعہ اور تکرار کرنا ،دیگر نفلی عبادات اور تلاوت کرنے سے افضل ہے، اس لیے تلاوت کلام پاک کے لیے کوئی اور وقت متعین کرنا مناسب ہے، اگر استاد خیر خواہی کے غرض سے طالب علم کو مطالعہ اور تکرار کے اوقات میں تلاوت سے روکے تو استاد گنہگار نہیں ہوگا، البتہ اگر طالب علم اپنا مطالعہ وتکرار مکمل کرچکا ہے تو اس وقت تلاوت بھی کرسکتا ہے، استاد کو اس کی رعایت کرنی چاہیے۔
لمافي الشامية:
النظر في كتب أصحابنا من غير سماع أفضل من قيام الليل، وتعلم الفقه أفضل من تعلم باقي القرآن. قوله: (وتعلم الفقه إلخ) في (البزازية) تعلم بعض القرآن ووجد فراغًا، فالأفضل الاشتغال بالفقه لأن حفظ القرآن فرض كفاية وتعلم ما لا بد من الفقه فرض عين. قال في الخزانة: وجميع الفقه لا بد منه.(مقدمة، مطلب: الفرق بين المصدر وحاصل بالمصدر: 1/101، رشيدية)
وفي الهندية:
وفي «الفتاوى»: سئل أبو بكر عن قراءة القرآن للمتفقة، أهي أفضل أم درس الفقه؟ قال: حكى عن أبي مطيع قال: النظر فى كتب أصحابنا من غير سماع أفضل من قيام الليل.(كتاب الكراهية، الباب الرابع: 5/367، دار الفكر).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر: 170/106