کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ شادی بیاہ کی رسومات سے متعلق چند سوالات پیش خدمت ہیں :
۱۔جب دلہا کو نئے کپڑے پہنائے جاتے ہیں تو اس وقت اس کے سر پر تمام لوگ جو اس وقت موجود ہوتے ہیں، انگلی سے تیل لگاتے ہیں اور ایک آدمی ان سے پیسے وصول کرتا ہے، کیا اس طرح تیل لگانا اور پیسے وصول کرنا جائز ہے۔ اس طرح پیسے لینے کو(تیل کی ویل)کا نام دیتے ہیں۔
۲۔اسی طرح تمام رشتہ دار جن میں محرم اور غیر محرم تمام مرد شامل ہوتے ہیں، لڑکی کے پاس جاتے ہیں اور اس کے سرپر انگلی سے تیل لگاتے ہیں ،اور یہاں بھی ایک عورت ان سے پیسے وصول کرتی ہے،کیا اس طرح غیر محرم رشتہ دار کا سر پر تیل لگانا اور پیسے وصول کرنا جائز ہے یا نہیں؟
۳۔کیا شادی کے دن دلہا کو پیسے والے ہار پہنانا اور اس کے سر پر پیسے نچھاور کرنا تاکہ چھوٹے بچے ان پیسوں کو اٹھائیں،کیا یہ طریقہ صحیح ہے؟کیا اس طرح کی شادی میں جانا جائز ہے یا نہیں؟اور کیا ان رسومات کو ادا کرنے والے گناہ گار ہوں گے یا نہیں؟
شادی کے موقع پر دلہن اور دلہا کے سر پر تیل لگانا، دلہا کو ہار پہنانا اور اس پر پیسہ نچھاور کرنامحض جاہلانہ رسمیں ہیں اور دلہن کے پاس غیر محرم مردوں کا جانا تو اور زیادہ قبیح فعل اور بے حیائی کی بات ہے، شریعت مطہرہ میں ان رسومات کی کوئی حیثیت نہیں، اس لیے ان کا ترک لازم اور ضروری ہے۔
''عَنْ حَمْزَۃَ بْنِ أَبِی أُسَیْدٍ الْأَنْصَارِیِّ عَنْ أَبِیہِ أَنَّہُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ وَہُوَ خَارِجٌ مِنْ الْمَسْجِدِ فَاخْتَلَطَ الرِّجَالُ مَعَ النِّسَاء ِ فِی الطَّرِیقِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلنِّسَاء ِ اسْتَأْخِرْنَ فَإِنَّہُ لَیْسَ لَکُنَّ أَنْ تَحْقُقْنَ الطَّرِیقَ عَلَیْکُنَّ بِحَافَّاتِ الطَّرِیقِ.'' (سنن ابی داود، ٢/٣٦٨، کتاب الأدب، مدادایہ، ملتان)
''ولا یحل لہ أن یمس وجھھا ولا کفھا وإن کانا یأمن الشھوۃ.'' ( الفتاوی العالم گیریہ٥/٣٢٩، کتاب الکراھیۃ، رشیدیۃ).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی