حکومت کی طرف سے ممنوعہ اشیاء کی خرید وفروخت کے لیے رشوت دینا

حکومت کی طرف سے ممنوعہ اشیاء کی خرید وفروخت کے لیے رشوت دینا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بعض مقامات پر انتظامیہ کی طرف سے کھلا تیل بیچنے پر پابندی ہوتی ہے (صورت حال یہ ہے کہ بعض کھلے تیل تو واقعتا مضر صحت ہوتے ہیں اور بعض اعلی کوالٹی کے ہوتے ہیں ان میں کوئی نقصان دہ چیز نہیں ہوتی) اور انتظامیہ کی طرف سے پیک شدہ اشیاء کے بیچنے کا حکم ہے، حالاں کہ پیک شدہ تیل کی مقدار بھی کم ہوتی ہے اور ان کی قیمتیں کھلے تیل کی بنسبت زیادہ ہوتی ہیں، لیکن کھلے تیل کے بیچنے پر انتظامیہ کے ذمہ دار حضرات رشوت کا مطالبہ کرتے ہیں اور نہ دینے کی صورت میں ان کی طرف سے چھاپے، مالی جرمانے وغیرہ جیسی سختیاں عائد ہوتی ہیں، تو کیا اس صورت میں کھلا تیل بیچنے کے لیے ان لوگوں کو رشوت دینا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ آدمی جب کسی حکومت کے ماتحت رہتا ہے، تو اس کے جائز قوانین کی پابندی اس پر لازم ہوتی ہے، ان قوانین کی خلاف ورزی کرنا شرعا ، اخلاقا جرم ہے اور اس سے عزت ومال کا خطرہ ہوتا ہے، جب کہ شریعت میں اپنی عزت ومال کو خطرہ میں ڈالنا عقل مندی کی بات نہیں۔
لہذا صورت مسئولہ میں حکومت کی طرف سے ممنوعہ اشیاء کے خرید وفروخت کے لیے رشوت دینا جائز نہیں۔
لما في روح المعاني:
˒˒یا آیہا الذین آمنوا˓˓ أمر الناس باطاعتھم في ضمن اطاعتہ عز وجل واطاعۃ رسولہ صلی اللہ علیہ وسلم˒˒ أطیعوا اللہ وأطیعوا الرسول وأولي الأمر منکم˓˓ واختلف في المراد بھم فقیل أمراء المسلمین في عھد الرسول صلی اللہ علیہ وسلم وبعدہ ویندرج فیھم الخلفاء والسلاطین والقضاۃ وغیرھم‘‘.(سورۃ النساء [رقم الآیۃ: ٥٩]، ٦/ ١٠٤: مؤسسۃ الرسالۃ)
وفي صحیح البخاري:
’’عن ابن عمر رضي اللہ عنہما عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال:«السمع والطاعۃ حق ما لم یؤمر بمعصیۃ فإذا أمر بمعصیۃ فلا سمع ولا طاعۃ»‘‘.(کتاب الجھاد والسیر، ١٠٨، باب السمع والطاعۃ للإمام، رقم الحدیث: ٢٩٥٥، ط: دار السلام)
وفي الدر المختار:
’’لأن طاعۃ الإمام فیما لیس بمعصیۃ فرض، فکیف فیماھو طاعۃ؟‘‘.(کتاب الجھاد، باب البغاۃ، مطلب في وجوب طاعۃ الإمام، ٦/ ٤٠٤: رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:174/12

ممنوع ومباحات

مندرجہ بالا موضوع سے متعلق مزید فتاوی
اس کیٹیگری میں کوئی سوال موجود نہیں برائے مہربانی دوبارہ تلاش کریں.