کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص اپنی شادی میں گانا بجانا کرے، تو ایسے شخص کے نکاح میں شرکت اور نکاح میں تقسیم کی گئی چیزوں کا کھانا کیسا ہے؟
جس جگہ کے بارے میں پہلے سے معلوم ہو کہ وہاں گانا بجانا ہوگا، تو ایسی دعوت کو قبول کر کے وہاں جانا جائز نہیں ہے، البتہ اگر کوئی شخص ذی وجاہت ہو، اسے یقین ہو کہ میرے جانے کی وجہ سے وہ گانا بجانا روکیں گے، تو اس کے لیے دعوت قبول کر کے وہاں جانا ضروری ہے۔
اگر پہلے سے معلوم نہ ہو، بلکہ وہاں جاکر معلوم ہوجائے ،تو گانا بجانا اگر عین مجلس میں ہو تو وہاں بیٹھ کر کھانا جائز نہیں، بلکہ دعوت کو چھوڑ کر جانا ضروری ہے، اور اگر گانا بجانا عین مجلس میں نہ ہو بلکہ کسی دوسرے مکان میں ہو، تو اس صورت میں اگر مدعو شخص کوئی مقتدا ہو( لوگ جس کی پیروی کرتے ہیں) تو اس کے لیے وہاں بیٹھ کر کھانا جائز نہیں،بلکہ وہاں سے چھوڑ کر جانا ضروری ہے، البتہ اگر مدعو شخص مقتدا نہ ہو، تو اس کے لیے وہاں بیٹھ کر کھانے کی گنجائش ہے، اور کھانا کھانے کے بعد فورا وہاں سے اٹھ کر چلا جائے۔لما في التنویر مع الدر:
’’(دعي إلی ولیمۃ وثمۃ لعب أو غناء قعد وأکل) لو المنکر في المنزل، فلو علی المائدۃ لاینبغي أن یقعد بل یخرج معرضا لقولہٖ تعالٰی:فلا تقعد بعد الذکریٰ مع القوم الظالمین (فإن قدر علی المنع فعل وإلا) یقدر (صبر إن لم یکن ممن یقتدی بہ فإن کان) مقتدي (ولم یقدر علی المنع خرج ولم یقعد) لان فیہ شین الدین، والمحکي عن الامام کان قبل أن یصیر مقتدی بہ (وإن علم أولا) باللعب (لایحضر أصلا) سواء کان ممن یقتدی بہ أو لا، لان حق الدعوۃ إنما یلزمہ بعد الحضور لاقبلہ، ابن کمال‘‘.(کتاب الحظر والإباحۃ:574/9،رشیدیۃ)
وفي رد المحتار:
’’(لایحظر أصلا) إلا اذا علم أنھم یترکون ذلک احتراما لہ فعلیہ أن یذھب‘‘. (کتاب الحظر والإباحۃ:575/9،رشیدیۃ).
فقط. واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:177/113