کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس بارے میں کہ اب جب کہ حالات اس STAGE پر پہنچ گئے ہیں کہ شہرت وتقوی کی بلندیوں کو چھونے والے علماء کرام بھی انتہائی بے رغبتی اور ناگواری کی کیفیت میں امت کی اصلاح وتطہیر کی خاطر اپنی آواز جن عام مسلمانوں تک پہنچانے کے لیے TV جیسے زہریلے ذریعہ ابلاغ کو استعمال کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں اور نہ صرف یہ کہ TV پروگرام کے لیے وڈیو بن گئی اور بات ختم ہوگئی بلکہ اس کی تشہیر بھی کہ یہ جو آج درس کا پروگرام یا کسی بھی پروگرام کی نشت ہوئی ہے، اس کی وڈیو ،سی ڈی آپ فلاں دن فلاں جگہ سے حاصل کرسکتے ہیں اور یہ کہ یہ پروگرام جو ابھی ہوا ہے، اس کی ریکارڈنگ آپ ہر ہفتے فلاں TV چینل پر فلان وقت دیکھ سکتے ہیں، بلکہ یہ بھی ترغیب دی جا رہی ہے کہ فلاں پروگرام ہر بدھ فلاں TV چینل پر دیکھا جا سکتا ہے اور لوگوں کو چاہیے کہ تمام شہر کے لوگوں کو اپنے اپنے موبائلوں سے اس پروگرام کے بارے میں (MASAGE) کریں تا کہ زیادہ سے زیادہ افراد اس پروگرام کو TV پر دیکھ سکیں گویا یہ بھی تبلیغ دین کا ذریعہ بن گیا ہے اور یہ اعلان بلا شبہ دورِ حاضر کی اعلی دینی شخصیات کی موجودگی میں کیا جاتا ہے۔
مندرجہ بالا بیان کردہ صورتحال کی روشنی میں میرا سوال یہ ہے کہ:
۱۔ علماءِ کرام کے ان درس کے پروگراموں کو TV پر دیکھنے کے لیے TV کا گھر پر لانا اور ان کو دیکھنے کی کیا شرعی حیثیت ہوگی جب کہ دینی مدارس میں بھی علماء کرام کی موجودگی میں VIDEO بنائی جا رہی ہو اور اس قسم کے پروگراموں کی تبلیغ یا دوسرے لفظوں میں ترغیب دینے کی کیا شرعی حیثیت ہوگی اور کیا یہ طریقہ کار امت کے مسلمانوں کی روحانی ترقی اور دینی تشنگی کو دور کرنے میں معاون ومددگار ثابت ہوسکے گا۔
۲۔ ا ن عام دیندار مسلمانوں کی شریعت کی روشنی میں کیا حیثیت متعین کی جاسکے گی کہ جنہوں نے علماءِ کرام سے تعلق کی بنیاد اور محض اللہ تعالی کی رضا کی خاطر سر تسلیم خم کرتے ہوئے، اپنے پندرہ پندرہ اور بیس بیس ہزار کے TV کسی دوسرے مسلمان کے ہاتھ فروخت کرنے کے بجائے توڑ ڈالے کہ علماءِ کرام کا یہی حکم تھا کہ صرف TV کے بیچ دینے سے یہ سلسلہ ختم نہیں ہوگا، بلکہ دوسرے کسی مسلمان کے لیے گناہ کرنے کا ذریعہ بن جائے گا، لہٰذا اس کو توڑ کر اس سلسلے کو ختم کیا جائے تاکہ گناہ کی جڑ ہی ختم ہوجائے، کیا یہ مندرجہ بالا ا فراد اگر اب علماء کے پروگرام دیکھنے کی خاطر دوبارہ TV خرید لیتے ہیں تو ان کی TV کو توڑنے کے بعد والی زندگی اور اب دوبارہ TV لانے کے بعد والی زندگی کی کیا شرعی حیثیت ہوگی۔
۳۔ TV پر جلوہ افروز ہونے والے علماء کرام اور اس سے پرہیز کرنے والے علماء کرام میں شرعی طور پر کیا فرق ہوگا؟
گزارش گزار ہوں کہ اس صورتحال کا ایسا مدلل اور غیر متزلزل حل تحریر فرمائیں کہ جو مستقبل بعید میں بھی قابلِ عمل ہو اس لیے کہ ہر آنے والا دن ایک نئی آزمائش اور نئے مسائل لے کر آرہا ہے۔
واضح رہے کہ تصویر کی حرمت احادیث صریحہ وصحیحہ سے ثابت ہے، اور یہ احادیث معنوی طور پر حد تواتر تک پہنچی ہوئی ہیں۔
حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"إن أحاديث النهي عن التصاوير متواترة المعنى بلا ريب".
تصاویر کی حرمت کی احادیث بلا شبہ معنوی طور پر متواتر ہیں۔
(أحكام القرآن، الحزب الخامس، ص: 331)
لہذا اکابر امت اور تمام فقہی مکابتِ فکر کے جمہور علماء کرام کے نزدیک ہر جاندار کی تصویر خواہ چھوٹی ہو یا بڑی، مجسمہ کی شکل میں ہو یا ڈیجیٹل شکل میں، کاغذ پر ہو یا کپڑے پر بنانا نا جائز اور حرام ہے۔
علامہ نووی شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"قال أصحابنا وغيرهم من العلماء تصوير صورة الحيوان حرام شديد التحريم، وهو من الكبائر؛ لأنه متوعد عليه بهذا الوعيد الشديد المذكور في الأحاديث، وسواء صنعه بما يمتهن أو بغيره، قصنعته حرام بكل حالٍ؛ لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء ما كان في ثوب أو بساط أو درهم، أو دينار أو فلس، أو إناء أو حائط أو غيرها، وأما تصوير صورة الشجر ورحال الإبل وغير ذلك مما فيه ليس فيه صورة حيوان فليس بحرام... ولا فرق في هذا كله ما له ظل وما لا ظل له، هذا تلخيص مذهبنا في المسألة، وبمعناه قال جماهير العلماء من الصحابة والتابعين ومن بعدهم، وهو مذهب الثوري ومالك وأبي حنيفة وغيرهم، وقال بعض السلف: إنما ينهي عما كان له ظل، ولا بأس بالصور التي ليس لها ظل، وهذا مذهب باطل؛ فإن السر الذي أنكر النبي صلي الله عليه وسلم الصورة فيه لا يشك أحدٌ أنه مذموم وليس لصورته ظل مع ما في الأحاديث المطلقة في كل صورة.(شرح النووي، كتاب اللباس والزينة، باب تحريم صورة الحيوان: 2/199)
ہمارے علماء (شافعیہ) اور دوسرے علماء فرماتے ہیں کہ حیوان کی تصویر بنانا سخت حرام اور کبائر میں داخل ہے، اس لیے کہ اس پر یہ سخت وعید آئی ہے جو احادیث میں مذکور ہے، خواہ تصویر کو پامال وذلیل کرنے کے لیے بنایا ہو، یا کسی اور مقصد کے لیے، ہر حال میں اس کی صنعت حرام ہے، کیوں کہ اس عمل میں اللہ تعالی کی صفتِ تخلیق کا مقابلہ ہے، اور چاہے کپڑے، بچھونے پر بنائی جائے، یا درہم ودینار اور پیسوں پر، اور یا برتن اور دیوار وغیرہ پر، البتہ درخت، اونٹ کے کی جاوے، البتہ دوسری بے جان چیزوں کی تصویر بنانا حرام نہیں…اور ان تمام احکام میں سایہ دار (مورت) اور غیر سایہ دار (صرف نقش) میں کوئی فرق نہیں۔
اس مسئلہ میں یہ ہمارے مذہب کا خلاصہ ہے، اور یہی قول جمہور صحابہ رضی اللہ عنہم، تابعین اور ما بعد کے علماء کا ہے، امام ثوری، امام مالک ، امام ابو حنیفہ رحمہم اللہ وغیرہم کا بھی یہی مسلک ہے۔
بعض علماء کا کہنا ہے کہ سایہ دار تصویر ممنوع وحرام ہے، غیر سایہ دار تصویر میں کوئی حرج نہیں، لیکن یہ مذہب باطل ہے، کیوں کہ جس پردے کی منقش تصویر پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکیر فرمائی تھی، وہ تصویر بلا شبہ مذموم ہے، حالاں کہ وہ غیر سایہ دار تھی، نیز باقی احادیث بھی علی الاطلاق ہر تصویر کی حرمت پر دال ہیں۔
معاصرین اہل علم کا اختلاف:
جب تک ڈیجیٹل مشینوں کی ایجاد نہیں ہوئی تھی، اور تصاویر پائیدار اور منقش طریقہ پر ریل (Reel) میں محفوظ ہوجاتی تھیں، اور انہیں تصاویر کو پھر ٹیلی ویژن وغیرہ کے ذریعے دکھایا جاتا تھا، ان کی حرمت میں کوئی شبہ نہ تھا، لیکن پھر تصویر کی صنعت میں مزید ترقی ہوئی، اور ڈیجیٹل مشینوں کا وجود عمل میں آیا، اور ان کے ذریعے اسکرین پر غیر ثابت اور غیر مستقر تصاویر پر آنے لگیں، تو چند علمائے کرام نے ان نقوش کو تصاویر قرار دینے سے انکار کردیا اور فرمایا کہ شرعاً حرام تصویر وہ ہے جو کسی چیز پر دائمی طور پر ثابت ہو کر منقش ہوگئی ہو، جب کہ یہ نقوش آنے کے ساتھ ساتھ فنا ہوئے جاتے ہیں،لہٰذا ان کو صرف تصویر کی بنیاد پر نا جائز نہیں کہا جائے گا، البتہ اگر نا جائز ہونے کی دوسری کوئی وجہ موجود ہو تو اسے ممنوع قرار دیا جائے گا۔
لیکن جمہور علمائے کرام نے اس نظریہ کی سختی سے تردید کی، اور اسے بھی حرام قرار دیا، ہماری تحقیق بھی یہی ہے کہ اسکرین پر نظر آنے والے نقوش حرام تصویر کے حکم معین ہیں، خواہ ڈیجیٹل مشینوں کے ذریعے ہوں یا نہ ہوں۔
تصویر کی تعریف سے اس نظریہ کی تردید:
تصویر کی لغة، اصطلاحاً، شرعاً اور عرفا تعریفات بھی اس نظریہ کی تردید کے لیے کافی ہیں، تصویر باب تفعیل کا مصدر ہے، صورة سے ماخوذ ہے۔
علامہ فیروز آبادی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
الصورة (بالضم): الشكل، ج: صُوَر وصِوَر ..... وتستعمل الصورة بمعنى النوع والصفة». (القاموس المحيط: 2/73، دار الفكر)
صورت شکل کو کہتے ہیں، اس کی جمع صُوَر اور صِوَر آتی ہے۔ صورت کا استعمال نوع اور صفت کے معنی میں بھی ہوتا ہے۔
شیخ ابو حاتم احمد بن حمدان رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وتكون الصورة معناها: المثال، ومنها قيل للتماثيل: التصاوير لإنها مثلث على مثال الصور، فكأن كل أمر إذا انتهى إلى غايته وتمامه ظهرت صورته وبرز مثاله، ويقال: كيف صورة هذا الأمر؟ أي: كيف مثاله؟(كتاب الزينة في الكلمات الإسلامية: 1/59، بحواله شعاعي تصوير كي حقيقت)
”صورت کا معنی مثال کے آتے ہیں، اور تماثیل یعنی مجسموں کو تصاویر اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ اس کا نقشہ صورتوں کی مثال کے مطابق بنایا جاتا ہے، گویا کہ جو امر بھی اپنی غایت اور منتہی تک پہنچ جائے تو اس کی صورت اور مثال ظاہر ہوجاتی ہے، کہا جاتا ہے کہ اس امر کی صورت کیسی ہے؟ یعنی اس کی مثال کیسی ہے؟“۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
قدم رسول الله صلي الله عليه وسلم من سفر: وقد سترت بحرام لي على سهوة لي فيها تماثيل، فلما رأه رسول الله صلي الله عليه وسلم هتكه وقال: أشد الناس عذابًا يوم القيامة الذين يضاهون بخلق الله،قالت: فجعلناه وسادة أو وسادتين.
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر سے تشریف لائے، اور میں نے روشندان پر ایک باریک تصویر دار پردہ لٹکا رکھا تھا، جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تصویر دار پردہ کو دیکھا تو اسے پھاڑ دیا، اور فرمایا: کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب ان لوگوں کو ہوگا جو صفتِ خالقیت میں اللہ تعالی کی نقل اتارتے ہیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرمائی ہیں کہ پھر ہم نے وہ پردہ چاک کر کے اس سے ایک یا دو تکیے بنا لیے۔(صحیح البخاری، باب ما وطی من التصاویر، رقم الحدیث: 5954)
حضرت ابو ہریرة رضی اللہ عنہ سے روایت ہی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"لا تدخل الملائكة بيتًا فيه تماثيل أو تصاوير".(صحیح مسلم، باب تحریم صورة الحیوان، رقم الحدیث: 5545)
"فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں مجسمے یا تصاویر ہوں”۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ:
"كل مصور في النار، يجعل له بكل صورة صوّرها نفسًا فتعذّبه في جهنم".(صحيح مسلم، باب تحريم صورة الحيوان، الحديث: 5540)
”ہر تصویر بنانے والا آگ میں ہوگا، اللہ تبارک وتعالی اس کے لیے ہر اس کی بنائی ہوئی تصویر کے بدلہ میں ایک شخص کو پیدا فرمائیں گے جو دوزخ میں اسے عذاب میں مبتلا رکھے گا“۔
یہ حدیثیں اور اس جیسی بے شمار حدیثیں تصویر کی مطلقاً حرمت پر دال ہیں، ان میں نہ تو عکس وسایہ کا ذکر ہے اور نہ ہی پائیدار ومستقر کا۔
پھر احادیث میں جاندار کی تصویر بنانے کی حرمت کی ایک علت اللہ تعالی کی صفت خالقیت میں اس کی نقالی کرنا ہے جو شرک کے زمرے میں آتی ہے، اور یہ ظاہری نقالی اور مشابہت جدید شعاعی اور عکسی تصویر میں بوجہ اتم پائی جاتی ہے، تو جب ہاتھ سے بنائی ہوئی تصویر ادنی مشابہت کی وجہ سے حرام ہے تو عکسی تصویر بطریق اولی حرام ہوگی کہ اس میں جاندار کی ایک ایک ادا کو محفوظ کر لیا جاتا ہے۔
نیز شریعت کے احکام ظاہر پر مبنی ہوتے ہیں، اور بظاہر یہ تصویر ہی ہے بلکہ حقیقت میں بھی تصویر ہے کیوں کہ تصویر کی بنیادی اشیاء اس میں موجود ہیں، یعنی روشنی کے رنگ اور مصور جسم کی صورت میں پیش کرنا ، اور کمال وغایت کو پہنچ جانا۔
ضرورت کے مواضع اس سے مستثنی ہیں۔
البتہ مجبوری اور ضرورت کے وقت شریعت نے ارتکاب حرام کی اجازت دی ہے، ارشاد باری تعالی ہے: ﴿فمن اضطر غير باغ ولا عاد فلا إثم عليه﴾ (سورة بقرة: 2، الجزء: 2، الآیة: 173)
لہٰذا اضطرار اور مجبوری کے وقت بقدر ضرورت خنزیر کا گوشت کھانے اور شراب پینے کی گنجائش ہے۔
شمس الأئمہ محمد بن احمد سرخسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:"ألا ترى أن المسلمين ولا يمنع يتبايعون بدراهم الأعاجم فيها التماثيل بالتيحان، ولا يمنع أحد عن المعاملة بذلك".(شرح السير الكبير، باب ما يحمل عليه الفئي: 3/142، عباس احمد الباز)
دیکھیے کہ مسلمان عجمیوں کے ایسے دراہم کے ذریعہ خرید وفروخت کرتے ہیں، جن پر تاج پوش بادشاہ کی تصویر بنی ہوتی ہے لیکن ان دراہم کے ذریعے معاملات کرنے سے کوئی بھی منع کرتا۔
امام محمد بن حسن شیبانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"وإن تحققت الحاجة له إلى استعمال السلاح الذي فيه تمثال فلا بأس باستعماله".
اگر کسی ایسے ہتھیار کو استعمال کرنے کی ضرورت پیش آجائے جس پر تصویر بنی ہوئی ہو تو اس کے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
اس عبارت کی شرح میں امام سرخسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:"لأن مواضع الضرورة مستثناة من الحرمة كما في تناول الميتة"
.
کیوں کہ ضرورت کے مواقع حرمت سے مستثنی ہوتے ہیں، جیسے ضرورت کے موقع پر مردار جانور کھانا۔(شرح السیر الکبیر، باب ما یكره في دار الحرب: 4/218، عباس احمد)
یہی وجہ ہے کہ علمائے کرام نے شناختی کارڈ، پاسپورٹ، اور دیگر اہم سرکاری دستاویزات اور دہشت گردی سے حفاظت کی خاطر تصویر کی اجازت دی ہے۔
حضرت مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«بعض ممالک بعید کے سفر کے لیے تمام حکومتوں کی طرف سے مسافر کو مجبور کیا جاتا ہے کہ پاسپورٹ حاصل کرے اور اپنا فوٹو کھنچوائے، اگر یہ سفر کسی شرعی کے لیے یا معاش کی ضرورت کے لیے ہو تو بوجہ اضطرار کے فوٹو کھنچوانا جائز ہے»۔
(تصویر کے شرعی احکام، ص: 70)
لیکن موجودہ دور میں ٹی وی کا خریدنا، اسے گھر میں رکھنا اور دینی پروگراموں کے لیے اسے استعمال کرنا (لعنت تصویر کے علاوہ) بچند وجوہ نا جائز اور حرام ہے:
۱۔ عصر حاضر میں تبلیغ دین کے سلسلہ میں اضطرار کی وہ کیفیت نہیں کہ اگر ٹی وی کے ذریعے تبلیغ دین نہ کیا جائے تو خدا نخواستہ لوگ مرتد ہو کر دائرہ اسلام سے خارج ہوجائیں گے، تبلیغ اسلام اور اشاعت دین کے لیے وعظ ونصیحت، درس قرآن وحدیث، دعوت وتبلیغ، مختلف اوقات میں موقع ومحل کے اعتبار سے ہفتہ وار اور ماہانہ اصلاحی بیانات تصنیف وتالیف، افتاء وتدریس، اور اصلاحی مضامین پر مشتمل مختلف رسائل ومجلات جیسے اہم ذرائع موجود ہیں۔
خوفِ خدا رکھنے والے حضرات علمائے کرام ان ذرائع کو اپنا کر خدمت دین متین میں شب وروز مصروف ہیں، اور اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ان ذرائع سے کامل طور پر فائدہ بھی ہو رہا ہے جو کسی سے مخفی نہیں۔
۲۔ ٹی وی کا اگر بالفرض ومحال کوئی فائدہ بھی ہو تو اس کی گنجائش دینے سے عوام میں تصویر سازی کی لعنت کے جواز کی خوب اشاعت وتبلیغ ہوگی اور وہ تصویر سازی کو ہر جگہ جائز سمجھنے لگے گی، والمفضی إلی الحرام حرام۔
۳۔ ٹی وی آلہ معصیت ہے، اس کی ایجاد فی شیء وعریانی کو پھیلانے کے لیے ہے، ٹی وی سے برائی وبے حیائی پھیلائی جاسکتی ہے، اس کے ذریعے دین کی اشاعت ہو، اور اسے موجودہ مشکل میں تبلیغ دین کے لیے استعمال کا جائے ممکن نہیں۔
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! کیا شر کے ذریعے خیر آسکتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں تین مرتبہ یہ ارشاد فرمایا: خیر خیر ہی کے ذریعے آسکتی ہے۔
(صحیح مسلم، کتاب الزکوة، باب التحذیر من الاغتراء، رقم الحدیث: 2422)
۴۔ ٹی وی پر جو مختلف پروگرامز آتے ہیں، ان میں سے اکثر وبیشتر کھیل تماشے ہوتے ہیں، ان میں ناچ گانا، حیا سوز عناصر کا اجتماع، انتہائی پست اور رذیل اعمال کی طرف دعوت ہوتی ہے، اور جو دینی پروگرامز ہوتے ہیں، وہ بہت ہی کم، پھر ان میں بھی اکثریت فرق باطلہ اور اہل بدعت کی خرافات کی ہوتی ہے، جس سے دین کے نام پر لوگوں کے اعمال وعقائد کو خراب کیا جاتا ہے۔
۵۔ اگر پروگرامز بالکل قرآن وسنت کے اصولوں کے مطابق بھی ہوں تو وہ ہفتہ (168) گھنٹوں میں صرف ایک یا کم وبیش گھنٹوں پر مشتمل ہوتے ہیں، صرف ایک گھنٹے کے لیے ہفتہ میں ٹی وی کھولنا اور بقیہ (167) گھنٹے بند رکھنا نا ممکن نہیں تو مشکل ترین ضرور ہے۔
ٹی وی دیکھنے والے اتنے متقی وپرہیزگار بھی نہیں ہوتے کہ ہفتہ بھر ٹی وی کو ہاتھ نہ لگائیں، اگر بالفرض ایسا ہو تو اولاً وہ لوگ پھر ہدایت یافتہ ہیں، کم از کم ٹی وی کے ذریعے بیان اور ہدایت کی انہیں ضرورت نہیں، ثانیا ایسے افراد بہت ہی کم ہوں گے جو آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں، اکثریت اسے معصیت میں استعمال کرے گی۔
کسی چیز کے جواز اور عدم جواز کا فیصلہ وحکم اس کے عام استعمال اور ابتلاء کو دیکھ کر لگایا جاتا ہے، قلیل کالعدم استعمال کو نہیں دیکھا جاتا، اور عام استعمال اس کا ناجائز ہو رہا ہے۔
مصلحت اور معصیت کا ٹکراوٴ:
یاد رہے کہ ضرورت اور مجبوری کے وقت جن تصاویر کی اجازت دی گئی ہے اس میں ”اہون البلیتین“
کو اختیار کیا گیا ہے، ورنہ کسی مصلحت دینویہ کی خاطر جس طرح معصیت کا ارتکاب کرنا جائز نہیں مثلا دنیوی نفع کے لیے مکر وفریب کو اپنانا، تو اسی طرح مصلحت دینیہ کے لیے بھی معصیت کا ارتکاب کرنا جائز نہیں، مثلاً غریبوں کی مدد کرنے کے لیے چوری اور ڈاکہ زنی کرنا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور سلف صالحین کی زندگیوں کا مطالعہ کرنے سے بے شمار مثالیں ایسی ملیں گیں کہ انہوں نے دین کے لیے موٴثر سے موٴثر تدبیریں صرف اس لیے چھوڑ دیں کہ وہ شریعت کے خلاف تھیں، اور وجہ اس کی یہی تھی کہ مالک کی اطاعت تمام مصالح پر مقدم ہے، اسی لیے انہوں نے ظاہری مصالح وفوائد کی کوئی پروا نہ کی، اور انہیں ام المصالح (اطاعت مالک لم یزل) پر قربان کرنا۔
لہٰذا ٹی وی اور ویڈیو کو بھی علماء کا دینی پروگرامز کے انعقاد کے لیے استعمال کرنا نا جائز اور حرام ہے، کیوں کہ اولی تو یہ تصویر جیسی لعنت پر مشتمل ہے، اور ثانیا اگر تصویر نہ بھی ہو تو اس میں مفاسد کثیرہ کے پیش نظر اس کے استعمال کی اجازت دینا انتہائی خطرناک گمراہی کا سبب ہے۔
اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص چیر پھاڑنے والا خطرناک شیر چھوڑ دے، اور وہ شیر قتل عام مچا دے، یا کوئی شخص بجلی کا کرنٹ کسی چیز میں جاری کردے کہ جو شخص بھی اس کے اوپر سے گزرے وہ کرنٹ اسے ختم کردے، یا کوئی شخص کھانے میں زہر ملا دے کہ جو بھی اسے کھائے وہ موت کی وادی میں پہنچ جائے، اس کے بعد جب اس شخص پر قتل کا الزام عائد ہو تو وہ کہے کہ میں نے تو قتل نہیں کیا بلکہ شیر، بجلی اور زہر نے قتل کیا ہے۔
مندرجہ بالا تفصیل کے بعد آپ کے سوٴالات کا مختصر جواب یہ ہے کہ
۱۔ دینی پروگرامز دیکھنے کے لیے ٹی وی خریدنا اور اسے گھر پر لانا نا جائز وحرام ہے، علمائے کرام کی موجودگی میں ویڈیو بننا جواز کی دلیل نہیں، اس لیے کہ اصل حجت قرآن وحدیث ہے، علمائے کرام کا نا جائز عمل دلیل نہیں بن سکتا، البتہ وہ حضرات اپنے کیے کے خود ذمہ دار ہیں۔
۲۔ جن دیندار مسلمانوں نے اپنی ٹی ویاں توڑ دیں، تو انہوں نے نہی عن المنکر کرتے ہوئے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ارشاد "من رأی منکم منکراً فليغيره بیده "
پر عمل کیا ہے، یقینا اس کا ثواب ان کے اعمال نامے میں درج ہوگا، اب بھی ٹی وی خریدنے سے اجتناب ضروری ہے، ان علمائے کرام کی مجالس میں شریک ہوں جو آمنے سامنے ہوتی ہیں، اور روحانیت سے لبریز ہوتی ہیں۔
۳۔ امید ہے کہ مذکورہ تفصیل سے فرق سمجھ آگیا ہوگا۔فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 78/32