کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ایک آدمی کے سر کے بال آگے سے بڑے ہوں اور پیچھے سے چھوٹے ہوں، کیا یہ ناجائز عمل ہے؟ بعض لوگ آگے والے حصے کے بالوں کو جو بڑے ہیں ٹوپی میں پیچھے کی طرف کرتے ہیں، اور بعض سر کے دائیں یا بائیں جانب کی طرف کرتے ہیں اور بعض لوگ پیشانی کی طرف چھوڑ دیتے ہیں، اس کا کیا حکم ہے؟ اور اگر سر کے بال چاروں جانب برابر ہیں، لیکن سنت کے جو تین طریقے ہیں ان کے مطابق نہیں ہیں اس کا کیا حکم ہے؟
واضح رہے کہ بال رکھنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سر کے چاروں طرف سے برابر ہوں، سر کے بعض حصے کے بال منڈوانا یا چھوٹے کرنا اور بعض حصے کے لمبے چھوڑنا، فساق اور فجار اور غیر مسلموں کا طریقہ کار ہے اور غیر مسلموں اور فاسقوں کی مشابہت (شکل وصورت میں) اختیار کرنا شرعاً ممنوع ومذموم ہے۔
لہذا صورت مسئولہ میں ذکر کردہ صورت حال کے مطابق سرکے آگے والے بال بڑے رکھنا اور اطراف اور پیچھے سے چھوٹے کرنا درست نہیں۔لما في بذل المجہود:
عن ابن عمر رضي اللہ عنہما،أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم :’’نھی عن القزع، وھو أن یحلق رأس الصبي، ویترک لہ ذؤابۃ، ولیس ھذا مختصا بالصبي، بل إذا فعلہ کبیر یکرہ لہ ذلک، فذکر الصبي باعتبار العادۃ الغالبۃ‘‘.(کتاب الترجل، باب في الصبي لہ ذؤابۃ:220/12، رقم الحدیث: 4194:دارالبشائر)
وفي السنن لأبي داود:
عن ابن عمر رضي اللہ عنہما ،أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم: رأی صبیا قد حلق بعض رأسہ وترک بعضہ، فنھاھم عن ذلک، فقال: ’’احلقوہ کلہ، أو اترکوہ کلہ‘‘.(کتاب الترجل، باب في الصبي لہ ذؤابۃ، رقم الحدیث:4195، ص:589:دار السلام).
فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:177/20