کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص نے نشے کی حالت میں اپنی ساس کو تین دس کے نوٹ دیے اور اس سے کہا کہ ”یہ تیری بیٹی کی طلاق ہے“ اور اپنے سسر کے سامنے کہ کہا کہ ”تیری بچی کو طلاق دے کر جا رہا ہوں“ اور یہ کہہ کر گھر سے نکل گیا، آپ حضرات سے یہ دریافت کرنا ہے کہ یہ طلاق رجعی ہے یا بائن ہے یا مغلظہ؟
صورتِ مسئولہ میں چوں کہ مذکورہ نے اپنی ساس کو تین نوٹ دے کر کہا کہ ”یہ تیری بیٹی کی طلاق ہے“، اس لیے مذکورہ شخص کی بیوی کو قضاء تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، البتہ مذکورہ شخص نے چوں کہ ایک طلاق کی نیت کی تھی، اب اگر وہ اپنی بات پر سچا ہے اور کسی قسم کی غلط بیانی سے کام نہیں لے رہا، تو دیانۃ اس کی بیوی کو ایک طلاقِ رجعی واقع ہوگی۔لما في الدر مع الرد:’’(انت طالق ھكذا مشيرا بالأصابع) المنشورة (وقع بعدده)‘‘.’’قوله:(وقع بعدده) أي بعدد ما أشار إليه من الأصابع الإشارة الغوية أو بعدد ما أشار به منھا الإشارة الحسية تأمل، فإن أشار بثلاث فھي ثلاث أو بثنتين فثنتان أو بواحدة فواحدة كما في الھداية. قال في البحر: لأن ھذا تشبيه بعدد المشار إليه وھو العدد المفاد كميته بالأصابع المشار إليه بذا لأن الھاء للتنبيه والكاف للتشبيه وذا للإشارة.1ھ. وانظر ھل الإشارة إلى غير الأصابع من المعدودات كذلك أم لاختصاص إرادة العدد في العادة بالأصابع‘‘. (كتاب الطلاق، مطلب في قول الامام ايمان جبريل: 482/4، رشيدية)وفيه أيضا:’’(ولو لم يقل ھكذا): أي بأن قال أنت طالق وأشار بثلاث أصابع ونوى الثلاث ولم يذكر بلسانه فإنها تطلق واحدة خانية‘‘.’’قوله:(لفقد التشبيه أي بالعدد) قال القھستاني لأنه كما لا يتحقق الطلاق بدون اللفظ لا يتحقق عدده بدونه‘‘.(كتاب الطلاق، مطلب في قول الامام ايماني كايمان جبريل: 484/4، رشيدية).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر:179/16