کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک کمپنی ہے Bizz Trade کے نام سے، پاکستان، آئر لینڈ، اورانگلینڈ میں رجسٹرڈ ہے، اس کمپنی کا کام یہ ہے کہ کمپنی کا ایک ایجنٹ ہوتا ہے جو کمپنی سے رابطہ میں ہوتا ہے، لوگوں سے انویسٹ لیتا ہے، او رکمپنی تک پہنچاتا ہے، ان پیسوں سے کمپنی دنیا کی مختلف کرنسیاں خریدتی ہے او رجیسے ہی کسی کرنسی کا ریٹ High (اوپر)ہوتا ہے تو کمپنی اس کرنسی کو دسری کرنسی کے عوض مہنگے داموں میں فروخت کر دیتی ہے، اسے ٹریڈنگ کہتے ہیں، اور جو نفع ملتا ہے اس کے نو حصے خود رکھتی ہے ایک حصہ جتنے لوگوں نے انویسٹ کی ہے ان میں تقسیم کرتی ہے، تو کیا اس طرح کی کمپنی میں پیسے لگانا جائز ہے؟ جب کہ فتاوی عثمانی میں ہے کہ ایک کرنسی کو دوسری کرنسی کے مقابلے میں کمی زیادتی کے ساتھ بیچنا جائز ہے، کیا مذکورہ کمپنی والی صورت اس صورت میں داخل ہے ؟ شریعت کی روشنی میں راہ نمائی فرمائیں۔
مذکورہ صورت آن لائن کرنسی ٹریڈنگ (فاریکس) کی ہے، جو کہ درج ذیل امفاسد کی بناء پر جائز نہیں:
1..حقیقی خرید وفروخت نہ ہونے کی بنا پر اکثر صورتوں میں ” بیع الدین بالدین“ (ادھار کی بیع ادھار کے ساتھ ) ہوتی ہے۔
2..اسکرین پر محض اعداد وشمار کے بڑھنے اور گھٹنے کو نفع اور نقصان شمار کیا جاتا ہے، حسی طور پر کسی چیز پر قبضہ نہیں ہوتا، اس طرح یہ معاملہ سٹہ میں داخل ہو جاتا ہے۔
3..حقیقی روپوں پر بھی معاملہ کیا گیا ہو تو بھی فوراً بیچنے کی صورت میں ”بیع قبل القبض“ (قبضہ سے پہلے بیچنا) ہے، جس سے شریعت میں منع کیا گیا ہے۔
چوں کہ آن لائن کرنسی ٹریڈنگ کے کاروبار میں بیع کے جواز کی شرعی شرطیں عموماً نہیں پائی جاتی ہیں، بلکہ یہ ایک طرح سے سود اور قمار (جوے) کی شکل ہے، لہٰذا اس سے اجتناب ضروری ہے۔
آپ نے جو فتاوی عثمانی کا حوالہ دیا ہے، اس کا تعلق عام حالات میں ایک کرنسی کو دوسرے کرنسی کے عوض بیچنے سے ہے، جو کہ آن لائن نہ ہو، بلکہ ایک شخص دوسرے سے خرید رہا ہو ( ملاحظہ ہو فتاوی عثمانی:3/148) جب کہ فتاوی عثمانی میں ہی آن لائن کرنسی کی عالمی مارکیٹ میں خرید فروخت کی مروجہ صورت کو ناجائز قرار دیا گیا ہے۔ (ملاحظہ ہو فتاوی عثمانی:3/155)۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر : 157/294