کیا بہو پر ساس کی خدمت لازم ہے،جبکہ شوہر اس کا حکم کرے؟

Darul Ifta mix

کیا بہو پر ساس کی خدمت لازم ہے،جبکہ شوہر اس کا حکم کرے؟

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ کیا بہو پر لازم ہے کہ وہ ساس کی خدمت کرے؟ اور ساس کے بہو پر کیا حقوق ہیں ؟ اور اگر ساس کے بہو پر حقوق ہیں ،پھر بھی  بہو  حقوق  کا خیال نہ رکھے تو وہ کون سے گناہ کا ارتکاب کرنے والی شمار ہوگی ؟ اور اگر بہو  پر ساس کی خدمت کرنا لازم نہیں ہے ، تو کیا شوہر کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی بیوی پر اپنی ماں کی خدمت لازم کرے ؟ وضاحت فرمائیں

جواب 

بہو پر ساس کی خدمت کرنا شرعاً لازم نہیں ہے، البتہ  اخلاقاً  بہو کو چاہیے کہ وہ اپنی ساس کی خدمت کرے، کیونکہ وہ اس کے شوہر کی والدہ ہے،جب وہ اس کی والدہ کی خدمت کرے گی تو اس کو شوہر کی خوشنودی حاصل ہوگی ،اور آئندہ کل جب بہو کو ضرورت پڑے گی ،تو یہی ساس اس کی خدمت اور دیکھ بھال کرے گی،نیز فقہاء کرام کی عبارت سے یہ معلوم ہوتا ہےکہ اگر شوہر اپنی بیوی کو امر مباح کا حکم دے تو اس پر  لازم ہوتا ہے، لہذا اگر شوہر اپنی بیوی کو اپنی والدہ (ساس)  کی خدمت کرنے کا حکم دے تو  وہ قضاءً لازم نہیں ہوگا،البتہ دیانۃ ً لازم ہوگا۔

میاں ،بیوی  دونوں میں سے ہر ایک اس بات پر غور کریں کی یہ ایسا رشتہ ہے جو حقوق جتانے کے ساتھ نہیں چلتا ،بلکہ احسانات کے ساتھ چلتا ہے، جب ایک دوسرے کے ساتھ احسانات و ہمدردی کا معاملہ ہوگا، تو گھر میں  خوشگوار ماحول پیدا ہوگا،جس سے زندگی  راحت و سکون کے ساتھ گزرے گی ۔

وفي الدر مع الرد:

وحقه عليها أن تطيعه في كل مباح يأمرها به.

(قوله في كل مباح) ظاهره أنه عند الأمر به منه يكون واجبا عليها كأمر السلطان الرعية به . (كتاب النكاح،باب القسم،4/385،ط: رشيدية).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتوی نمبر: 174/57