چار میں سے کسی ایک فقہی مسلک کی پابندی کیوں؟

Darul Ifta mix

چار میں سے کسی ایک فقہی مسلک کی پابندی کیوں؟

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ جب فقہ کی چاروں مسالک کا ماخذ قرآن وسنت ہے، تو پھر ہم ایک مسلک پر خود کو کیوں محدود کریں، کہیں ایسا ہو کہ ایک مسئلہ ایک مسلک میں قرآن وسنت سے زیادہ قریب نظر آئے اور دوسرا مسئلہ دوسرے مسلک میں ، تو کیا ہم اس طرح کر سکتے ہیں؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں ؟  کیوں کہ ماخذ تو سب کا ایک  ہی ہے،رہنمائی فرمائیں۔

جواب

جب فقہ کے چاروں مسالک کا ماخذ قرآن وسنت ہے، تو پھر کسی ایک مسلک کے ساتھ محدود ہونا حق ہی کے ساتھ محدود ہوتا ہے، چوں کہ بیک وقت مذاہب اربعہ کو اختیار کرنا ممکن نہیں، لامحالہ ایک کو اختیار کرنا ہو گا اور اگر کہیں ایسا ہو کہ ایک مسئلہ ایک مسلک میں قرآن وسنت سے زیادہ قریب نظر آئے اور دوسرا مسئلہ دوسرے مسلک میں قرآن وحدیث سے قریب تر ہو، تو ایسی حالت میں دو صورتیں ممکن ہیں:  ایک تو یہ کہ ہم خود قرآن وحدیث کھول کو بیٹھ جائیں اور ہماری اپنی عقل وفہم میں جو بات آئے اس کو  دین  سمجھ کر اس پر عمل کرنے لگیں ،اور دوسری صورت یہ ہے کہ جو حضرات قرآن وسنت کے ماہر ہیں، ان سے رجوع کریں او رانہوں نے اپنی مہارت، طویل تجربہ اور خداداد بصیرت سے قرآن وحدیث میں غور کرنے کے بعد جو نتیجہ اخذ کیا ہے اس پر اعتماد کریں۔

 پہلی صورت خودرائی کی ہے اور دوسری صورت کو تقلید کہا جاتا ہے ،جو عین تقاضائے عقل وفطرت کے مطابق ہے، اب یہ سوال کہ عام آدمی کو ایک معین عالم  کی تقلید ہی کیوں ضروری ہے؟ تو جو شخص قرآن وحدیث کا اس قدر ماہر ہو کہ وہ خود مرتبہ اجتہاد کو پہنچ گیا ہو وہ عامی نہیں، بلکہ خود مجتہد ہے، اس کو کسی دوسرے ماہر فن کی تقلید نہ صرف یہ کہ ضروری نہیں بلکہ جائز بھی نہیں۔
اور جوشخص خود درجہ اجتہاد پر فائز نہ ہو، اس نے خواہ کتنی ہی کتابیں پڑھ رکھی ہوں وہ عامی ہے اور اس کو بہرحال کسی مجتہد کے قول کی طرف رجوع کرنا پڑے گا، اب وہ  ایک معین امام  پر اعتماد کرکے اس کے بتائے ہوئے مسائل پر عمل کرے تو شرعاً اس پر جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس نے اسے پورا کر دیا، لیکن اگر وہ کسی ایک امام کے بجائے جس امام کی جو بات پسند آئے اسے قبول کرے تو سوال یہ ہے کہ اس کی پسند ناپسند کا معیار کیا ہو گا؟ اگر کہا جائے کہ قرآن وحدیث کے مطابق پاتا ہے اسی کو اختیا رکرتا ہے تو اس نے درحقیقت اپنی فہم کو معیار بنایا ہے؛  اس لیے ہم کہیں گے کہ اگر وہ واقعی قرآن وحدیث کا ماہر ہے اور اس کی فہم قرآن وحدیث حجت ہے ،تو اس کو کسی امام کی تقلید کی ضرورت ہی نہیں، یہ خود مجتہد مطلق ہے اور اگر وہ قرآن وحدیث کا ماہر نہ ہونے کے باوجود اپنی عقل وفہم کو معیار بناتا ہے، تو پھر وہ خود رائی کا شکار ہے جو اس کے دن کے لیے مہلک ہو سکتی ہے۔
''وَعَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو۔ رضی اﷲ عنہما۔ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ً وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِی عَلَی ثَلَاثٍ وَسَبْعِینَ مِلَّۃً کُلُّہُمْ فِی النَّارِ إِلَّا مِلَّۃً وَاحِدَۃً قَالُوا وَمن ہِیَ یَا رَسُولَ اللَّہِ قَالَ مَا أَنَا عَلَیْہِ وأصحابی.'' (مشکوٰۃ ٣٠/١، قدیمی)
''وأن الحکم الملفق باطل بالاجماع۔۔۔۔۔۔ الدر المختار: مقدمہ:١/٧٥، سعید)
'' فعلیکم یامعاشر المؤمنین بابتاع الفرقۃ الناجیۃ المسماۃ بأھل السنۃ والجماعۃ، فإن نصرۃ اﷲ وحفظہ وتفیقہ فی موافقتھم، وخذلانہ وسخطہ ومقتہ فی مخالفتھم، وھذہ الطائفۃ الناجیۃ قد اجتمعت الیوم فی المذاھب الأربعۃ وھم الحنفیون والمالکیون والشافعیون والحنبلیون ۔رحمھم اﷲ علیہ اجمعین۔ ومن کان خارجاً عن ھذہ الأربعۃ فی ھذا لازمان فھو من أھل البدعۃ والنار.(حاشیۃ الطحاوی علی الدرالمختار، کتاب الذبائح،١٥٣/٤، دارالمعرفۃ، بیروت)
''وأخرج الخطیب۔۔۔۔۔۔ قال یا أمیر المؤمنین! إن اختلاف العلمائ۔ رحمہ اﷲ من اﷲ تعالیٰ علی ھذہ الأمۃ، کل یتبع ما صح عندہ، وکلھم علی ھدی وکل یرید اﷲ تعالیٰ.'' (رد المحتار علی الدرالمختار، مطلب فی حدیث، ''اختلاف امتی رحمۃ ٦٨/١، سعید)
''قال فی شرح المھذب: إن العامی ھل یلذمہ لن یتمذھب بمذھب معین یأخذ عزائمہ ؟ فیہ وجھان، حکاھما ابن برھان: أحدھما: لایلزھہ کما لم یلذم فی العصر الأول أن یخص بتقلیدہ عالما بعینہ، والثانی: یلزمہ۔۔۔۔۔۔ وھو جار فی کل من لم یبلغ رتبۃ الاجتہاد من الفقہاء وأصحاب سائر العلوم، ووجھہ أنہ لوجاز اتباع آی مذھب شأا؛ لأفضی إلی أن یفظ رخص المذاھب متبعاً ھواہ ویتخین بین التحلیل والتحریم، والوجب والجواز، وذلک یؤدی إلی الخلال ربقۃ التکلیف، بخلاف العصر الأول، فإنہ لم تکن المذاہب الوافیۃ بأحکام الحوادث مھذبۃ، فعلی ھذا یلزمہ أن یجتھد فی اختیار مذھب یقلدہ علی التعین۔۔۔۔۔۔الخ.'' (مقدمۃ إعلاء السنن، الفائدۃ الحادیۃ عشر، تحقیق فی الالتزام بمذھب،٢/٢٣٣، ادارۃ القرآن)۔ فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی