ٹیسٹ ٹیوب بےبی کا حکم

Darul Ifta mix

ٹیسٹ ٹیوب بےبی کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ ایک مریض کا آپریشن سے پہلے ، جس میں ڈاکٹر کی رائے کے مطابق اس میں تولید (بچے پیدا کرنے کی صلاحیت  بالکل ضائع ہوجائے گی، کیا اپنے بچے پیدا کرنے کا مادہ نکلوا کر اسے محفوظ کرا سکتا ہے، تاکہ مستقبل میں وہ جب چاہے اس کی موجودہ بیوی کے رحم میں ٹیوب کے ذریعے داخل  کرکے بچہ  پیدا کیا جاسکے ،کیا یہ عمل  شریعت کے مطابق ہوگا ، یا نہیں ؟ رہنمائی فرمائیں ۔

جواب 

صورتِ مسئولہ  میں مذکورہ عمل ( طریقہ) مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ جائز ہے :

۱۔ واقعتاً اس عمل (علاج ) کی ضرورت ہو ، کوئی اور علاج کار آمد نہ ہو۔

۲۔ اس عمل کے کامیاب ہونے کے لیے ظاہری امکانات بھی موجود ہوں ۔

۳۔ مادہ منویہ زوجین ( میاں ، بیوی) کا ہو ۔

۴۔ میاں ، بیوی کے نطفے کا کسی غیر کے نطفے سے ملنے کا اندیشہ نہ ہو ۔

۵۔ یہ عمل میاں بیوی خود انجا م دیں، اگر مجبوراً کسی ڈاکٹر کی خدمات لینی ضروری ہوں ، تو اس با ت کا لحاظ رکھا جائے کہ لیڈی ڈاکٹر سرانجام دے ، اسی طرح پردے کا خاص خیال رکھے ، جتنی ضرور ت ہو اسی کے بقدر ستر کھول دے، بصورت دیگر یہ عمل جائز نہیں ہوگا۔

لما في الدر مع الرد:

فروع أدخلت منيه في فرجها هل تعتد؟ في البحر بحثا: نعم لاحتياجها لتعرف براءةالرحم، وفي النهر بحثا: إن ظهر حملها نعم، وإلا لا. (قوله: أدخلت منيه) أي مني زوجها من غير خلوة ولا دخول، أما لو أدخلت مني غيره فقد قدمناه في الموطوءة بشبهة... أقول: سنذكر في الاستيلاد عن البحر عن المحيط ما نصه: إذا عالج الرجل جاريته فيما دون الفرج فأنزل فأخذت الجارية ماءه في شيء فاستدخلته في فرجها في حدثان ذلك فعلقت الجارية وولدت فالولد ولده، والجارية أم ولد له اهـ.(كتاب الطلاق،باب العدة،5/216، ط:رشيدية). فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتوی نمبر: 173/158