ویڈیو کو بطور شہادت پیش کرنا

Darul Ifta mix

ویڈیو کو بطور شہادت پیش کرنا

سوال

 کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ بھائیوں نے مل کر اپنی بہن سے زمین اپنے نام پر منتقل کی اور جبراً بہن کا انگوٹھا لگوایا، اس کے بعد اس مسئلہ پر فیصلہ کے لیے جرگہ بلالا گیا، جرگہ میں بطور گواہی بہن کی ویڈیو پیش کی گئی (کیوں کہ بہن کا جرگہ سے پہلے انتقال ہوچکا تھا)، جس میں وہ اس بات پر اصرار کر رہی تھی کہ زمین کے انتقال کے وقت میرا انگوٹھا جبراً اور زبردستی لگوایا گیا، اور اس بات پر اس کے پوتے بھی جرگہ میں گواہی دے رہے تھے، جب کہ فریقین میں سے مخالف یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے بہن کا انگوٹھا جبراً نہیں لگوایا۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ بطور شہادت ویڈیو پیش کی جاسکتی ہے یا نہیں؟ اور فیصلہ میں یہ معتبر ہے کہ نہیں؟ از راہ کرام شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ شریعت نے کسی بھی مقدمہ میں فیصلہ کے لیے اصل گواہوں کا ہونا ضروری قرار دیا ہے، تصویر یا ویڈیو پر فیصلہ کا مدار نہیں رکھا جاسکتا، کیوں کہ ویڈیو کے ذریعہ جو تصویر کشی کی جاتی ہے اس میں تلبیس، دھوکہ اور تبدیلی کی کافی گنجائش ہوتی ہے۔
لہذا صورت مسئولہ میں ویڈیو کہ نہ بطور شہادت پیش کرنا درست ہے اور نہ ہی فیصلہ میں اس کا اعتبار کیا جائے گا۔
لما في الہدایۃ:
’’ولو سمع من وراء الحجاب لا یجوز لہ أن یشہد، ولو فسر القاضي لا یقبلہ؛ لأن النغمۃ تشبہ النغمۃ، فلم یحصل العلم‘‘.(کتاب الشہادۃ، فصل فیما یتحملہ الشاہد: ٥/ ٤١١: البشری)
وفي الہندیۃ:
’’ولو سمع من وراء الحجاب، لا یسعہ أن یشہد لاحتمال أن یکون غیرہ، إذ النغمۃ تشبہ النغمۃ، إلا إذا کان في الداخل وحدہ ودخل وعلم الشاہد أنہ لیس فیہ غیرہ، ثم جلس علی المسلک ولیس لہ مسلک غیرہ، فسمع إقرار الداخل ولا یراہ؛ لأنہ یحصل بہ العلم، وینبغي للقاضي إذا فسر لہ أن لا یقبلہ. کذا في التبیین‘‘.(کتاب الشہادات، الباب الثاني: في بیان تحمل الشہادۃ وحد أدائہا والامتناع عن ذلک: ٣/ ٣٨٩: رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتویٰ نمبر:173/02