وکیل کا ملزم سے ہدیہ و تحفہ لینے کا حکم، کسی وکیل کے پاس کلائنٹ بھیجنے پر کمیشن لینے کا حکم

Darul Ifta mix

وکیل کا ملزم سے ہدیہ و تحفہ لینے کا حکم، کسی وکیل کے پاس کلائنٹ بھیجنے پر کمیشن لینے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ میں ایک سرکاری  وکیل ہوں یعنی سرکار کی جانب سے ملزم کے خلاف کیس لڑتا ہوں ، ہمارے پاس مختلف قسم کے کیس آتے ہیں ، ان میں بعض کیس ایسے ہوتے ہیں جن میں بظاہر ملزم کے خلاف جرم کے شواہد نہیں ملتے، اور ہمیں یوں لگتا ہے کہ ملزم کے خلاف فرضی کیس بنایا گیا ہے، چنانچہ ایسے کیسوں میں اگر ہم جج کے سامنے  محض یہ کہہ دیں  کہ ہمیں ملزم کی طرف منسوب جرم کے شواہد نہیں ملے لہذا ملزم بے گناہ ہے تو جج ہمارے  کہنے پراس ملزم کو بری کر دیتا ہے ۔

اس جیسے کیسوں میں ملزم بری ہوتا ہے تو میرا احسان سمجھ کر گفٹ کے طور پر مختلف قسم کی چیزیں گھر میں بھیجتے ہیں ، بہت سارے لوگوں کو یہ کہہ کر انکار کردیتا ہوں کہ ہمارے لیے جائز نہیں ہے، لیکن  پھر بھی بہت سارے ایسے لوگ جن کا تعلق دوست احباب ، عزیز و اقارب سے ہوتا ہے ، انہیں اس قسم کے گفٹ پر انکار کرنا قطع تعلق و باراضگی کا باعث بنتا ہے ، اور بعض لوگ میری عدم موجودگی میں میرتے والد یا چچا کو گفٹ پکڑا دیتے ہیں جن کے سامنے انکار کرنا میرت لیے ممکن نہیں ،اب پوچھنا یہ ہے کہ اس قسم کے کے گفٹ لینا اور استعمال کرنا ازروئے شریعت کیسا ہے؟اور اگر جائز نہ ہوں تو اس کا متبادل کیا ہے؟

۲۔ دوسرا سوال یہ  کہ کبھی کبھار ہم کسی کلائنٹ کو اس کا کیس لڑنے کے لیے دوسرے وکیل کے پاس بھیجتے ہیں تو اس کی دو صورتیں ہیں: ایک  یہ ہے کہ وہ وکیل بطور گفٹ مجھے کچھ دیتا ہے، دوسرا یہ کہ میں پہلے سے اس  وکیل کے ساتھ پیسے متعین کردیتاہوں کہ اتنے پیسے  آپ نے مجھے دینے ہیں ، اب پوچھنا یہ ہے کہ اس قسم کے پیسے لینا جائز ہے، اگر جائز نہیں تو اس کا متبادل کیا ہے؟

جواب

۱۔صورت مسئولہ میں ملزم کی طرف سے دیا جانے والا تحفہ لینا اور استعمال کرنا جائز ہے، اور اگر کوئ تحفہ نہیں لیتا ہے، تو وہ اس کا اپنا تقویٰ ہے، اس لیے کہ وہ رشوت نہیں ہے، بشرطیکہ عرفاً  ہدیہ یا  تحفہ دینا لازم نہ سمجھا جائے ، اور وہ خوشی سے دے ۔

۲۔صورت مسئولہ میں دوسرے وکیل کی طرف سے دیا جانے والا تحفہ لینا جائز ہے، اور متعین کردہ پیسے لینا  بھی جائز ہے۔

لما في الشامية:

ولو قضى حاجته بلا شرط ولا طمع فأهدى إليه بعد ذلك فهو حلال لا بأس به وما نقل عن ابن مسعود من كراهته فورع.(كتاب القضاء، مطلب : في الكلام على الرشوة والهدية، 8/42،رشيدية)

وفيه أيضا:

وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم وفي الحاوي سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار فقال أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غيرجائز فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال رأيت ابن شجاع يقاطع نساجا ينسج له ثيابا في كل سنة.(كتاب الإجارة،مطلب في أجرة الدلال،9/107،رشيدية).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتوی نمبر: 175/250،251