کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید نامی شخص کو خالد نامی شخص نے فون کیا کہ مجھے اتنے پیسے بھیج دو، مجھے سخت ضرورت ہے، بچے بیمار ہیں، تم میرے UBL اکائونٹ سے نکلو الینا، بہت زور لگا یا زید کے پاس کچھ رقم امانت رکھی ہوئی تھی، کچھ زکوۃ کے پیسے تھے، اور کچھ لوگوں سے قرضہ لے کر مطلوبہ رقم خالد کو بھیج دی، بعد میں زید کو معلوم ہوا کہ یہ تو سب کچھ فراڈ تھا، اب زید کا خالد سے کوئی رابطہ نہیں ہو پارہا۔
در اصل زید کا ایک خالد نامی دوست بھی ہے ، اس سے جب معلوم ہوا تو انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ اب دریافت طلب یہ ہے کہ زید مذکورہ پیسوں کا (زکوۃ، امانت اور لوگوں سے لیے گئے قرضہ) کا ضامن ہو گا یا نہیں؟ جبکہ اس کے ساتھ اتنا بڑا دھو کہ ہوا ہے۔
وضاحت: زکوۃ کے پیسے جو ضایع ہوئے ہیں اس میں یہ دوسروں کا وکیل تھا۔
صورت مسئولہ میں زید نے (زکوۃ، امانت اور قرضہ کے پیسے) جو خالد کو دیئے ہیں، ان سب پیسوں کا زید ضامن ہے، لہذا زید زکوۃ کے مؤکلین کے علم میں لاکر ان سے دوبارہ اجازت لے کر زکوۃ ادا کرے۔لما في الدر المختار:”ولا يخرج عن العھدة بالعزل... قوله: (ولا يخرج عن العھدة بالعزل) فلو ضاعت لا تسقط الزكاة‘‘. (كتاب الزكوة، مطلب في زكاة ثمن المبيع وفاء، 225/3، رشيدية)وفي البحر الرائق:”الوديعة لا تودع ولا تعار ولا توجر ولا ترهن وان فعل شيئا منھا ضمن ... الخ“. (كتاب الوديعة، 7/ 367، رشيدية)وفي التنوير مع الدر:”(هي) لغة: إعارة الشيء... وشرعاً: (تمليك المنافع مجاناً) أفاد بالتمليك لزوم الإيجاب والقبول ولو فعلا... وحكمھا كونھا أمانة“. (كتاب العارية، 549/8، دار المعرفة).فقط.واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:179/240