والد کی زندگی میں بیٹے کا اپنا حصہ لے کر وراثت سے دستبرداری کا معاہدہ کرنا

والد کی زندگی میں بیٹے کا اپنا حصہ لے کر وراثت سے دستبرداری کا معاہدہ کرنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص کے چار بیٹے ہیں، ایک بیٹا باپ کوزندگی میں ہی وراثت دینے پر مجبور کر رہا ہے، ما بعدہ باپ اپنے چار بیٹوں میں سے اس ایک کو متعین حصہ وراثت کا  دے دیتا ہےاس شرط پر کہ میری موت کے بعد آپ کو وراثت نہیں ملے گی، اور بیٹا اس کو قبول کرتا ہے اور اقرار کرتا ہے اور رضا مندی بھی دکھاتا ہے، اور یہ پورا معاملہ تحریراً لکھا جاتا ہے، تو کیا اس طرح کرنے سے یہ بیٹا باپ کے مرنے کے بعد وراثت سے محروم ہوگا یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ والدین کی زندگی میں ان کی اولادکا ان کی جائیداد میں مالکانہ حق یا حصہ نہیں ہوتا، تاہم اگر والدین اس بات پر راضی ہو جائیں کہ زندگی میں اپنی اولاد کے درمیان جائیداد تقسیم کریں تو وہ ایسا کر سکتے ہیں، یہ ان کی طرف سے ہبہ اور عطیہ ہوگا۔ البتہ اولاد کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ والدین سے زبردستی تقسیم کا مطالبہ کریں، اور وراثت ایسا حق نہیں کہ بیٹا جس کے بدلےوالد کی زندگی میں عوض لے کر ان کے مرنے کے بعد دستبردار ہوجائے۔
لہذا صورت مسئولہ میں جس بیٹے نے والد صاحب کی زندگی میں حق وراثت کے بدلےایک متعین حصہ وصول کر کے والد صاحب کے انتقال کے بعد دستبرداری کا معاہدہ کیا، تو اس بیٹے کی اس حصے میں ملکیت ثابت نہیں ہوئی، چنانچہ اس پر لازم ہے کہ اگر والد صاحب زندہ ہیں تو انہیں وہ حصہ واپس کرے، اور اگر والد صاحب کی وفات ہو گئی تو یہ حصہ بھی وراثت میں شمار ہو گا، البتہ والد صاحب کے انتقال کے بعد وہ اپنی وراثت کے حصے کا حق دار ہوگا۔
لما في بدائع الصنائع:
’’حكم الملك ولاية التصرف للمالك في المملوك باختياره ليس لأحد ولاية الجبر عليه إلا لضرورة ولا لأحد ولاية المنع عنه وإن كان يتضرر به‘‘.(كتاب الدعوى، فصل في بيان حكم الملك والحق الثابت في المحل: 504/8، دار الكتب العلميةبيروت)
قال الرافعي في حاشية الشامية:
’’ثم رأيت في التتمة وجه قول مشايخ بلخ: أن المورث ما دام حيا فهو مالك لجميع أمواله من كل وجه، فلو ملكه الوارث في هذه الحالة أدى إلى أن يصير الشىء الواحد مملوكا لشخصين لكل واحد منهما على الكمال في هذه الحالة، وهذا أمر تدفعه العقول‘‘.(كتاب الفرائض :527/10، رشيدية)
وفي فقه البيوع:
’’ولكن جواز هذا الاعتياض على وجه الصلح إنما إذا كان هناك حق قائم ثابت في الحال كما في حق القصاص، وحق بقاء النكاح والرق، أما إذا كان حقا متوقعا في المستقبل غير ثابت في الحال، فإن ذلك لايجوز الاعتياض عنه، لا عن طريق البيع ولا عن طريق الصلح، وذلك مثل: حق الإرث في حياة المورث، لايجوز التناول عنه بمال، لأن حق الإرث في حياة المورث ليس حقا ثابتا، بل هو حق متوقع يحتمل الثبوت وعدمه، وإنما يتقرر بموت المورث في حياة الوارث‘‘.(احكام بيع الحقوق، 257/1، معارف القران).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر:193/341