نیٹ ورک مارکیٹنگ کمپنی میں شامل ہوکر ممبر سازی کرنے کا حکم

نیٹ ورک مارکیٹنگ کمپنی میں شامل ہوکر ممبر سازی کرنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک نیٹ ورک مارکیٹنگ کی کمپنی ہے ،اس کا نام گرین لیف ہے، اس میں کام کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ آنے والا ہر ممبر اس کمپنی میں 61500 روپے جمع کرواتا ہے، پھر کمپنی اس شخص کو مختلف قسم کی پروڈکٹ مثلا: ٹوتھ پیسٹ، سرف، برتن دھونے والالیکوڈ ، کریم وغیرہ دیتی ہے، جس کی کل مالیت 3 سے 4 ہزار روپے ہے، پھر یہ شخص اپنی محنت پر اور لوگوں کو اس کمپنی کے بارے میں آگاہ کرتا ہے، اور لوگ اس شخص کے واسطے سے اس کمپنی کا حصہ بنتے ہیں، اگر دو شخص آئے تو پہلے والے ممبر کو کمپنی تقریبا 40000 روپے دیتی ہے، اسی طرح کمپنی پہلے والے شخص کو اور بندے جو اس کے واسطے سے آئیں گے ،تو اسی طرح کا بونس دیتی رہتی ہے، جس میں باہر ممالک کا وزٹ وغیرہ، اور گاڑی بھی شامل ہے، اب ایسی صورت میں اس کمپنی کے ساتھ کام کرنا کیسا ہے ؟شرعا اس میں نقصان تو نہیں ہے حالاں کہ دنیاوی طور پر فائدہ ہی فائدہ ہے، لیکن پوچھنا یہ ہے کہ شرعا اور اخروی طور پر نقصان تو نہیں۔
شریعت کی روشنی میں مکمل جواب تفصیل کے ساتھ وضاحت فرمائیں، تاکہ ذہن اور دل مطمئن ہوسکے، اللہ تعالی آپ حضرات کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ (آمین)

جواب

واضح رہے کہ کہ اس کمپنی میں شرعی اعتبار سے مختلف مفاسد اور خرابیاں پائی جاتی ہیں، مثلا: غرر، دھوکہ دہی اور غیر متعلقہ شرطیں وغیرہ، کمپنی کا ممبر بننے کے لیے ابتداء جو رقم (61500 روپے) ادا کی جاتی ہے، اس کی حیثیت قرض کی ہے، اور بعد میں کمپنی کے لیے کام کرنا اور ممبر بننا یہ عقد اجارہ ہے، لیکن اس اجارہ کو مشروط کیا گیا ہے کہ ابتداء مذکورہ رقم کی ادائیگی کی جائے، اب اس اجارہ کے اندر قرض کو شامل کیا گیا ہے، یہ ایک معاملہ کو دوسرے معاملہ میں داخل کرنے کی وجہ سے درست نہیں ہے، اور اس میں ممبر کا فائدہ بھی ہے، جو عقد اجارہ کے بالکل خلاف ہے، نیز اس کمپنی میں سامان کی خرید وفروخت بنیادی مقصد نہیں ہوتا، بلکہ فرضی اور واقعی فوائد بتا کر یا ان میں مبالغہ آرائی کرکے یا اہمیت دلانے کے نام پر مختلف سیدھے سادھے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ ممبر بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، اسی طرح  اس کے ذریعے اپنے کمیشن بڑھانے کا ٹارگٹ اور منصوبہ ہوتا ہے، اور اس میں آئندہ کی موہوم آمدنی کا سبز باغ دکھایا جاتا ہے، نیز کمپنی کے اصول کے مطابق دیگر ممبران کے شامل ہونے پر اصل ممبر کو بھی معاوضہ دیا جاتا ہے، جن کی ممبر سازی میں ان کی کوئی محنت نہیں ہوتی، بلکہ اس کے نیچے کے ممبران میں سے کسی کے بنائے ہوئے ممبر ہوتے ہیں، اس لیے نیٹ ورک مارکیٹنگ کمپنی کا ممبر بن کر ممبر سازی کا کام کرنا اور مختلف راستوں سے معاوضہ کے نام سے مالی فوائد حاصل کرنا شرعا جائز نہیں ہے، اس لیے مذکورہ کمپنی میں کاروبار سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔
قال اللہ تبارک وتعالٰی:
˒˒یا أیہا الذین آمنوا لا تأکلوا أموالکم بینکم بالباطل إلا أن تکون تجارۃ عن تراض منکم ولا تقتلوا أنفسکم إن اللہ کان بکم رحیما˓˓.(النساء: ٢٩)
وفیہ أیضاً:
˒˒قالوا إنما البیع مثل الربا وأحل اللہ البیع وحرم الربا˓˓.(البقرۃ: ٢٧٥)
وفي جامع الترمذي:
عن أبي ھریرۃ رضي اللہ عنہ قال :˒˒نہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن بیع الغرر وبیع الحصاۃ˓˓.(أبواب البیوع، باب ما جاء في کراھۃ بیع الغرر، رقم الحدیث: ١٢٣: دار السلام ریاض)
لما في البدائع:
’’وأما الذي یرجع إلی نفس القرض، فھو أن لا یکون فیہ جر منفعۃ، فإن کان لم یجز نحومااقرضہ دراھم غلۃ، علی أن یرد علیہ صحاحا، أو أقرضہ وشرط شرطا لہ فیہ منفعۃ؛ لما روي عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم :أنہ (نھی عن قرض جر نفعا)؛ لأن الزیادۃ المشروطۃ تشبہ الربا؛ لأنھا فضل لا یقابلہ عوض، والتحرز عن حقیقۃ الربا، وعن شبھۃ الربا واجب ھذا إذا کانت الزیادۃ مشروطۃ في القرض، فأما إذا کانت غیر مشروطۃ فیہ ولکن المستقرض أعطاہ أجودھما، ولا بأس بذلک؛ لأن الربا اسم لزیادۃ مشروطۃ في العقد ولم توجد‘‘.(کتاب القرض، فصل في الشروط، ١٠/ ٥٩٧، ٥٩٨: رشیدیۃ).
وفي التنویر مع الرد:
’’وفي الأشباہ: کل قرض جر نفعا حرام‘‘.
(قولہ: کل قرض جر نفعا حرام) أي إذا کان مشروطا کما علم مما نقلہ عن البحر، وعن الخلاصۃ وفي الذخیرۃ وإن لم یکن النفع مشروطا في القرض، فعلی قول الکرخي لا بأس بہ‘‘.(کتاب البیوع، فصل في القرض، مطلب: کل قرض جر نفعا حرام، ٧/ ٤١٣: رشیدیۃ).
وفي شرح المجلۃ لسلیم رستم باز:
’’وتفسد أیضا بالشروط الفاسدۃ المخالفۃ لمقتضی العقد کما إذا شرط علی المستأجر علف الدابۃ ومؤنۃ الرد أو حرمۃ الدار ومغارمہا وعشرھا وخراجھا (أشباہ)‘‘.(الفصل الرابع في الإجارۃ وبطلانہا (المادۃ: ٤٦) الکتاب الثاني في الإجارۃ، ٢٠٤: حقانیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتویٰ نمبر:175/169