مقتدی کا نماز کی ایک رکعت میں سوجانے کے بعد ایک رکعت مزید پڑھنے سے نماز کا حکم

Darul Ifta mix

مقتدی کا نماز کی ایک رکعت میں سوجانے کے  بعد ایک رکعت مزید پڑھنے سے نماز کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص کرسی پر بیٹھ کر امام کی اقتداء میں نماز ادا کررہا تھا،تیسری رکعت میں وہ سوگیا پھر چوتھی رکعت کے وقت بیدار ہوگیا،اور امام کے سلام پھیرنے کے بعد اس شخص نے ایک رکعت پڑھی،آیا اس شخص کی نماز ہوگئی یا نہیں؟رہنمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ اگر کوئی مقتدی نماز پڑھتے ہوئے سوجائے اور  پھربعدمیں بیدار ہو،تو اس کے متعلق حکم یہ ہے کہ اگر امام صاحب نماز سے فارغ نہیں ہوئے ،تو مذکورہ شخص پہلےرہی ہوئی رکعت یا رکعتیں لاحق کی طرح بغیر قراءت کے رکوع وسجدہ وغیرہ کے ساتھ پڑھے،پھر امام صاحب کے ساتھ شامل ہوجائے،اور اگر امام نماز سے فارغ ہوجائے تووہ اکیلے اپنی نماز پوری کرلے؛لہٰذا صورت مسئولہ میں مذکورہ طریقے سے ادائیگی پر گناہ گار ہوگا،اگرچہ اس شخص کی نماز ادا ہوجائے گی۔

لما في حاشیة إبن عابدین:

وفي البحر:وحكمه أنه يبدأ بقضاء ما فاته بالعذر ثم يتابع الإمام إن لم يفرغ وهذا واجب لا شرط، حتى لو عكسه يصح، فلو نام في الثالثة واستيقظ في الرابعة. فإنه يأتي بالثالثة بلا قراءة. فإذا فرغ منها صلى مع الإمام الرابعة، وإن فرغ منها الإمام صلاها وحده بلا قراءة أيضا؛ فلو تابع الإمام ثم قضى الثالثة بعد سلام الإمام صح وأثم.اهـ .(کتاب الصلاة،مطلب فیما لو أتی بالرکوع أو السجود أو بهما مع الإمام أو قبله أو بعده:2/416،ط:رشیدیة).

وفي البحر:

فلو نام في الثالثة واستيقظ في الرابعة فإنه يأتي بالثالثة بلا قراءة؛لأنه لاحق فيها، فإذا فرغ منها قبل أن يصلي الإمام الرابعة، صلى معه الرابعة ،وإن بعد فراغ الإمام صلى الرابعة وحدها بلا قراءة أيضا؛ لأنه لاحق، فلو تابع الإمام، ثم قضى الثالث الثالثة بعد فراغ الإمام، صح وأتم وأثم.(کتاب الصلاة،باب الإمامة:1/623،ط:رشیدیة).

وفي الهندیة:

اللاحق إذا عاد بعد الوضوء، ينبغي له أن يشتغل أولا بقضاء ما سبقه الإمام بغير قراءة، يقوم مقدار قيام الإمام وركوعه وسجوده ولو زاد أو نقص فلا يضره.هكذا في شرح الطحاوي.وإذا كبر مع الإمام ثم نام حتى صلى الإمام ركعة، ثم انتبه، فإنه يصلي الركعة الأولى، وإن كان الإمام يصلي الركعة الثانية، هكذا في الذخيرة.ولو لم يشتغل بقضاء ما سبقه الإمام، ولكن يتابع الإمام أولا، ثم قضى ما سبقه الإمام بعد تسليم الإمام، جازت صلاته عندنا.هكذا في شرح الطحاوي.(کتاب الصلاة،الفصل السابع في المسبوق واللاحق:1/150،ط:دارالفکر).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتوی نمبر: 175/261