مسجد میں دورانِ نماز نمازی کے آگے سے گزرنے کا حکم

Darul Ifta mix

مسجد میں دورانِ نماز نمازی کے آگے گزرنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ یہ جو مسئلہ ہے نمازی کے سامنے سے گزرنے کا جہاں تک نمازی کی نگاہ جاتی ہے ایک صف یا دوصف یعنی یعنی تیسری صف کے بعد نمازی کے سامنے سے گزرنا کیسا ہے،جیسا کہ صاحبِ ہدایہ کا بھی یہی مسلک ہے کہ تیسری صف کے بعد نمازی کے سامنے کوئی بھی چیز نہ ہو گزر سکتا ہے، لیکن میں نے ایک مفتی صاحب سے سنا ہے کہ یہ حکم صحراء کے لیے ہے ،اگر شدید مجبوری ہو تو بھی جاسکتے ہیں۔

میں نے جامعہ فاروقیہ میں دیکھا کہ فجر کی نماز طلبہ کرام پچھلی صفوں میں مستقل ادا کرتے ہیں اور جو طلبہ جماعت میں شامل ہوتے ہیں وہ انہی کے سامنے سے گزر جاتے ہیں بعض طلبہ کے درمیان اور جماعت کے لیے جہاں صف بندی ہو رہی ہوتی ہے جس میں تین صف بعض میں چار صف کا فاصلہ ہوتا ہے؛لہٰذا آپ حضرات سے گزارش ہے کہ درج ذیل مسئلہ قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت  فرما کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں نمازی کے سامنے سے گزرنے کے متعلق تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ:اگر نمازی کسی چھوٹی مسجد یا کمرہ میں نماز پڑھ رہا ہو،تو نمازی کے آگے سے بغیر سترہ کےگزرناجائز نہیں،بلکہ نماز ختم ہونے کا انتظار کیا جائے۔
البتہ اگر بڑی مسجد (جس کا رقبہ [334.451مربع میٹر]تقریبا900مربع فٹ ہو)یا میدان ہو ،تو اتنی دور سے نمازی کے سامنے سے گزرنا جائز ہےکہ اگر نمازی اپنی نظر سجدہ کی جگہ پر رکھے تو گزرنے والا اسے(نمازی کو)نظر نہ آئےاور اس کا اندازہ نمازی کی جائے قیام سے تین صف آگے تک کیا گیا ہے۔
لہٰذاچھوٹی مسجد میں بغیر سترہ کے نمازی کے آگے سے گزرنا بالکل جائز نہیں اور بڑی مسجد یا میدان میں اتنا آگے سے گزر سکتے ہیں کہ گزرنے والا نمازی کو نظر نہ آئے،نیز صف کو پُر کرنے کے لیے نمازی کے سامنے سے گزرنا جائز ہے۔
لما في التنویر مع الدر:
(ومرور مار في الصحراء أو في مسجد كبير بموضع سجوده) في الأصح (أو) مروره (بين يديه) إلى حائط القبلة (في) بيت و (مسجد) صغير، فإنه كبقعة واحدة (مطلقا).
وفي الرد تحته:
قوله:(ومسجد صغير) هو أقل من ستين ذراعا، وقيل من أربعين، وهو المختار كما أشار إليه في الجواهرقهستاني.قوله:(فإنه كبقعة واحدة) أي من حيث إنه لم يجعل الفاصل فيه بقدر صفين مانعا من الاقتداء تنزيلا له منزلة مكان واحد، بخلاف المسجد الكبير فإنه جعل فيه مانعا فكذا هنا يجعل جميع ما بين يدي المصلي إلى حائط القبلة مكانا واحدا، بخلاف المسجد الكبير والصحراء فإنه لو جعل كذلك لزم الحرج على المارة، فاقتصر على موضع السجود، هذا ما ظهر لي في تقرير هذا المحل.(کتاب الصلاة،مطــلب:إذا قـــرأ قـــول تعالٰی جــــدک بــــدون ألــــف لاتفسد:2/479،ط:رشیــــدیــــة).
وفي حاشیة إبن عابدین:
وفي القنية قام في آخر صف وبينه وبين الصفوف مواضع خالية فللداخل أن يمر بين يديه ليصل الصفوف لأنه أسقط حرمة نفسه فلا يأثم المار بين يديه، دل عليه ما في الفردوس عن ابن عباس عنه - صلى الله عليه وسلم - «من نظر إلى فرجة في صف فليسدها بنفسه؛ فإن لم يفعل فمر مار فليتخط على رقبته فإنه لا حرمة له».(کتاب الصلاة،باب الإمامة:2/375،ط:رشیدیة)۔ فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتوی نمبر: 173/15