مدرسے کے لیے وقف عمارت میں عصری علوم کی تعلیم دینا

مدرسے کے لیے وقف عمارت میں عصری علوم کی تعلیم دینا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کہ مدرسہ کے نام پر چندہ جمع کرکے مدرسے کی عمارت بنانا، بعد میں اس مدرسے کی عمارت میں اسکول وکالج بنانا اور عصری فنون کی تعلیم دینا، نیز دینی تعلیم کو ثانوی حیثیت دینا یا پس پشت ڈال دینا اور پھر باقاعدہ فیس وصول کرنا اس کا شرعی حکم کیا ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں اگر مدرسہ کے نام پر چندہ جمع کیا گیاہے، اور چندہ دینے والوں کا مقصد بھی دینی مدرسہ کو چندہ دینا ہے، پھر اس سے مدرسے کی عمارت بنائی جائے، تو اس عمارت میں ا سکول اور کالج بنانا شرعا درست نہیں، اسی طرح اس عمارت میں دینی علوم کو ثانوی درجہ دینا، یا بالکل پس پشت ڈال دینا بھی شرعا درست نہیں۔
لما في الدر:
’’قولہ: شرط الواقف کنص الشارع، أي في المفہوم والدلالۃ ووجوب العمل بہ، فیجب علیہ خدمۃ وظیفتہ أو ترکہا لمن یعمل، وإلا أثم، لا سیما فیما یلزم بترکہا تعطیل الکل‘‘.(کتاب الوقف: ٦/  ١٦٣: رشیدیۃ)
وفي الرد:
’’علی أنہم صرحوا بأن مراعاۃ غرض الواقفین واجبۃ، وصرح الأصولیون بأن العرف یصلح مخصصا‘‘.(کتاب الوقف: ٦/ ٦٨٣: رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتویٰ نمبر:173/332