مدرسے کے لیے وقف شدہ زمین کو بیچنے کاحکم

مدرسے کے لیے وقف شدہ زمین کو بیچنے کاحکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مجھے ایک شخص نے زمین مدرسے کے لیے دیدی اور میرے نام پر اسٹامپ پیپر میں تحریر کیا ہے کہ میں فلاں ولد فلاں نے اپنی اراضی فلاں جگہ سےدس مرلہ زمین مدرسے کے لیے وقف کردی ہے، اور کچھ عرصے کے بعد واقف نے زمین کے حدود بھی متعین کردئیے کہ یہ دس مرلے میں نے مدرسے کے لیے وقف کیے ہیں، اب ہمارے بعض احباب یہ مناسب سمجھتے ہیں کہ مدرسے کے لیے وقف شدہ جو زمین ہے، اس کو بیچ کر اس کی جتنی رقم بنتی ہے قریب میں ایک مسجد ہے، اس میں مدرسہ بنا کر اس پر خرچ کریں، یا اس رقم سے قریب والی مسجد کے ارد گرد زمین خریدی جائے مدرسے ہی کے لیے، تو کیا اس طرح کرنا ہمارے لیے شریعت کی رو سے جائز ہے یا نہیں؟
وضاحت: واقف نے و قف کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ اس زمین کو تعمیر کرکے یہیں پر آپ تعلیم، دعوت وتبلیغ کی آبیاری کریں۔

جواب

واضح رہے کہ واقف جب کوئی زمین وقف کردے، تو اسے بیچنا جائز نہیں ہے۔لہذا صورت مسئولہ میں آپ کے لیے اس کو بیچنا اور اس رقم سے دوسری جگہ مدرسہ بنانا جائز نہیں۔
لما في الشامیۃ:
’’وفیہا لا یجوز استبدال العامر إلا في الأربع: الأولی: لو شرطہ الواقف. الثانیۃ :إذا غصبہ غاصب وأجری علیہ الماء حتی صار بحرا فیضمن القیمۃ، ویشتري المتولي بہا أرضا بدلا .الثالثۃ :أن یجحدہ الغاصب ولا بینۃ أي واراد دفع القیمۃ فللمتولي أخذھا لیشتري بھا بدلا .الرابعۃ :أن یرغب إنسان فیہ ببدل أکثر غلۃ وأحسن صقعا فیجوز علی قول أبي یوسف، وعلیہ الفتوی کما في فتاوی قارئ الہدایۃ‘‘.(کتاب الوقف، مطلب لا یستبدل العامر إلا في أربع، ٦/ ٥٩٤: رشیدیۃ)
وفي رد المحتار:
’’لأنہم صرحوا باستبدال الوقف إذا خرب وصار لا ینتفع بہ وھو شامل للأرض والدار ،قال في الذخیرۃ: وفي الملتقی ،قال ہشام سمعت محمدا یقول: الوقف إذا صار بحیث لا ینتفع بہ المساکین فللقاضي أن یبیعہ ویشتري بثمنہ غیرہ ولیس ذلک إلا للقاضي.....لکن الظاہر کلام المشایخ أن محل الاستبدال عند التعذر إنما ھو الأرض لا البیت‘‘.(کتاب الوقف، ٦/ ٥٧٦: رشیدیۃ)
وأیضا فیہ:
’’شرط الواقف کنص الشارع‘‘.(کتاب الوقف، مطلب في قولہم شرط الواقف کنص الشارع، ٦/ ٤٤٦: رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتویٰ نمبر:173/137