کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص نے منت مانی کہ میں فلاں بکرا اللہ تعالی کے لئے ذبح کروں گا(یعنی بکرا متعین کیا) پھر وہ بکرا ذبح کرنے سے پہلے گم ہوگیا یا پھر مرگیا، اب اس شخص پر اس کی جگہ دوسرا بکرا ذبح کرنا لازم ہے یا نذر ساقط ہوجائے گی؟
نذر ماننے میں جس متعین جانور کو ذبح کرنے کی نذر مانی جائے اور وہ جانور ہلاک ہوجائے یا گم ہو جائےتو نذر ذمے سے ساقط ہوجائے گی، لہذا صورت مسئولہ میں آدمی نے بکرا متعین کرکے اس کو اللہ کے لئے ذبح کرنے کی نذر مانی ہے اور وہ بکرا ہلاک ہوگیا ہے، اس لئے اب اس شخص کے ذمے سے نذر ساقط ہوچکی ہے، دوسرا بکرا یا اس کی قیمت ادا کرنا واجب نہیں ہے۔لما في التنوير مع الدر:’’(ولو اشتراها سليمة ثم تعيبت بعيب مانع) كما مر (فعليه إقامة غيرها مقامها إن) كان (غنيا وإن) كان (فقيرا أجزأه ذلك) وكذا لو كانت معيبة وقت الشراء لعدم وجوبها عليه بخلاف الغني ولا يضر تعيبها من اضطرابها عند الذبح‘‘.(كتاب الأضحية، 539/9، رشيدية)وتحته في الرد:’’قوله: (فعلى الغني غيرها لا الفقير) أي ولو كانت الميتة منذورة بعينها لما في البدائع أن المنذورة لو هلكت أو ضاعت تسقط التضحية بسبب النذر غير أنه إن كان موسرا تلزمه أخرى بإيجاب الشرع ابتداء لا بالنذرولو معسرا لا شيء عليه أصلا‘‘.(كتاب الأضحية، 539/9، رشيدية).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر:192/268