ماہِ صفر میں شادی کرنے کا حکم

Darul Ifta mix

ماہِ صفر میں شادی کرنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے کے بارےمیں کہ ماہِ صفر میں شادی کرنا شریعت کی رو سے کیسا ہے؟ کیوں کہ ہمارے معاشرے میں اس مہینے کے متعلق بہت سی بدعتیں مشہور ہیں، براہِ کرم آپ اس معاملے پر شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔

جواب

اسلام میں بدفالی کا تصور نہیں،ہرقسم کے خیروشر کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے،اس لیے صفر کے مہینے میں شادی کرنے کو منع کرنا بے دلیل اور بے اصل ہے،قرآن وحدیث میں اس کا کوئی ثبوت نہیں۔
لما في مرقاۃ المفاتیح:
عن أبي ھریرۃ رضي اللہ عنہ قال:قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:˒˒لاعدوی،ولاطیرۃ،ولاھامۃ ولاصفر،وفر المجذوم کما تفر من الأسد˓˓‘‘.رواہ البخاري
قولہ:(ولاصفر) قال الشارح:کانت العرب یزعمون أنہ حیۃ في البطن،واللدغ الذي یجدہ الإنسان عند جوعہ من عضہ.قال أبوداؤد في سننہ،قال بقیۃ:سألت محمد بن راشد عنہ؟ قال:کانوا یتشائمون بدخول صفر،فقال النبي صلی اللہ علیہ وسلم :’’لاصفر‘‘ قال:وسمعت من یقول:ھو وجہ یأخذ في البطن یزعمون أنہ یعدي.قال أبو داؤد،وقال مالک: کان أھل الجاھلیۃ یحلون صفرا عاما ویحرمونہ عاما، فقال صلی اللہ علیہ وسلم :’’لاصفر‘‘.
قال النووي، قیل:کانت العرب تعتقد أن في البطن دابۃ تھیج عند الجوع، وربما قلت صاحبھا، وکانت العرب تراھا أعدی من الحرب، وھذا التفسیر ھو الصحیح، وبہ قال مطرف، وابن عبید وغیرھما، وقد ذکرہ مسلم عن جابر بن عبداللہ راوي الحدیث،فتعین اعتمادہ. قلت:الأظھر الجمع بین المعاني، فإنھا کلھا باطلۃ کما سبق نظیرہ. قال القاضي: ویحتمل أن یکون نفیا لما یتوھم أن شھر صفر تکثر فیہ الدواھي والفتن‘‘.(باب الفأل والطیرۃ،الفصل الأول:8/344،رشیدیۃ)
(وکذا في فتح الباري:باب لاصفر،وھو داء یأخذ البطن:10/211،قدیمي).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتویٰ نمبر:180/190