فرض نماز کے سجدے میں عربی میں اور سنت نماز کے سجدے میں اپنی زبان میں دعا مانگنا

فرض نماز کے سجدے میں عربی میں اور سنت نماز کے سجدے میں اپنی زبان میں دعا مانگنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرا سوال نماز کے بارے میں ہیں، میں نے سنا ہے کہ فرض نماز میں سجدے کی حالت میں آپ تین دفعہ ’’سبحان ربی الاعلی‘‘ پڑھتے ہیں، اس کے علاوہ اگر عربی کی کوئی دعا ہو تو وہ آپ پڑھ سکتے ہیں، مزید یہ کہ سنت نماز میں آپ اپنی زبان جیسے کہ پنجابی، پشتو وغیرہ میں بھی دعا مانگ سکتے ہیں، تین دفعہ ’’سبحان ربی الاعلی‘‘ پڑھنے کے بعد کیا یہ درست ہیں؟ فرض کریں کہ میں سنت نماز میں تین دفعہ ’’سبحان ربی الاعلی‘‘ پڑھنے کے بعداپنی زبان (پشتو) میں دعامانگتا ہوں، تو کیا اس کی اجازت ہیں؟ رہنمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ فرض نمازمیں سجدہ کی حالت میں عربی زبان میں دعا کرنا جائز ہے، بشرطیکہ کلام الناس کے مشابہہ نہ ہو، بلکہ جو دعائیں قرآن وحدیث میں وارد ہیں ان کو اختیار کرے، لیکن اگر کوئی شخص امام ہو تو اس کو چاہیے کہ صرف تسبیحات پر اکتفاء کرے تا کہ سجدے کے طویل ہونے کی وجہ سے مقتدیوں کو تنگی لا حق نہ ہو، البتہ فرض نماز میں افضل یہ ہے کہ سجدے میں صرف تسبیح پڑھے، نماز میں خواہ فرض ہو یا سنت ونفل عربی زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں دعا مانگنا جائز نہیں ہے، بلکہ اس طرح  کرنے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے۔
لما في صحيح مسلم:
عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم: ’’كان يقول في سجوده اللهم اغفر لي ذنبي كله دقه وجله وأوله وآخره وعلانيته وسره‘‘.(كتاب الصلاة، باب ما يقال في الركوع والسجود، ح:1084، ص:200، دارالسلام)
وفي التنوير مع الدر:
’’(ودعا)بالعربية،وحرم بغيرها نهر لنفسه وأبويه وأستاذه المؤمنين.... (بالأدعية المذكورة في القرآن والسنة. لا بما يشبه كلام الناس)اضطرب فيه كلامهم ولا سيما المصنف والمختار كما قاله الحلبي:أن ما هو في القرآن أو في الحديث لا يفسد، وما ليس في أحدهما إن استحال طلبه من الخلق لا يفسد وإلا يفسد لو قبل قدر التشهد، وإلا تتم به ما لم يتذكر سجدة فلا تفسد بسؤال المغفرة مطلقا ولو لعمي أو لعمرو، وكذا الرزق ما لم يقيده بمال ونحوه لاستعماله في العباد مجازا‘‘.(كتاب الصلاة:2/ 285-291، رشيدية)
وفي رد المحتار:
’’ولا يبعد أن يكون الدعاء بالفارسية مكروها تحريما في الصلاة‘‘.(كتاب الصلاة، مطلب في الدعاء بغير العربية: 286/2، رشيدية)
وفي التنوير مع الدر:
’’(وليس بينهما ذكر مسنون،وكذا)ليس(بعدرفعه من الركوع)دعاء،وكذالا يأتي في ركوعه وسجوده بغير التسبيح(على المذهب)وما وردمحمول على النفل‘‘.
وتحته في الرد:
’’(محمول على النفل)أي تهجدا أو غيره خزائن، وكتب في هامشه: فيه رد على الزيلعي حيث خصه بالتهجد.اهـ. ثم الحمل المذكور صرح به المشايخ في الوارد في الركوع والسجود، وصرح به في الحلية في الوارد في القومة والجلسة وقال: على أنه إن ثبت في المكتوبة فليكن في حالة الانفراد، أو الجماعة والمأمومون محصورون لا يتثقلون بذلك كما نص عليه الشافعية‘‘.(كتاب الصلاة: 262/2، رشيدية)
وفي الهندية:
’’وإن كان إماما لا يزيد على وجه يمل القوم‘‘.(كتاب الصلاة، الباب الرابع في صفة الصلاة، الفصل الثالث في سنن الصلاة وآدابها وكيفيتها: 132/1، دارالفكربیروت).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر:193/137