کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص بکریاں چراتا ہے، اور کسی شخص کی مملوکہ غیر آبادی زمین میں لگے ہوئے درختوں سے لاٹھی کے ذریعے پتے جھاڑتا ہے، اور اپنی بکریوں کو کھلاتے ہیں، البتہ اس عمل سے درختوں کو نقصان نہیں پہنچتا (یعنی بڑی ٹہنیاں نہیں کاٹتا) کیا اس شخص کا اپنی بکریوں کے لئے اس طرح پتے جھاڑنے کا عمل درست ہے یا نہیں؟ جواب عنایت فرما کر ممنون فرمائیں۔
صورت مسئولہ میں اگر عرفاً درختوں سے پتے جھاڑنے سے منع نہیں کیا جاتا اور اس سے درختوں کو نقصان بھی نہیں ہوتا تو اس کی گنجائش ہے، لیکن اگر عرف نہیں تو صراحۃً اجازت ضروری ہے، اس کے بغیر جائز نہیں۔لمافي مشكاة المصابيح:وعن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ألا تظلموا ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه". رواه البيهقي في شعب الإيمان والدار قطني.(كتاب الاداب، باب الغضب والعارية، رقم الحديث: 2946، دارالسلام)وفي شرح المجلةلسليم باز:’’لا يجوزلأحد أن يتصرف في ملك غيره بلا إذنه‘‘.(كتاب البيوع، 61/2، مكتبة حنفية)وفي حاشية ابن عابدين:’’وإن كان في البستان فلو الثمار مما يبقى ولا يفسد كالجوز واللوز لا يأخذه ما لم يعلم الإذن ولو مما لا يبقى فقيل كذلك والمعتمد أنه لا بأس به إذا لم يعلم النهي صريحا أو دلالة أو عادة‘‘.(كتاب اللقطة، مطلب في من وجد حطبافي نهر، 436/6، رشيدية)وفي حاشية ابن عابدين:’’قال في البحر: ويدخل فيه جميع أنواع ما ترعاه المواشي رطبا أو يابسا بخلاف الأشجار لأن الكلأ ما لا ساق له والشجر له ساق فلا تدخل فيه حتى يجوز بيعها إذا نبتت في أرضه لكونها ملكه والكمأة كالكلأ‘‘.(كتاب البيوع، باب بيع الفاسد، 257/7، رشيدية).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر:192/272