صفر کے مہینے میں سورہ مزمل پڑھنا

Darul Ifta mix

صفر کے مہینے میں سورہ مزمل پڑھنا

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے کے بارےمیں کہ کیا صفر کے مہینے میں نحوست،بیماری یا مصیبت کا تصور کر کے سورہ مزمل پڑھنا ضروری ہے؟

جواب

واضح رہے کہ زمانہ جاہلیت میں لوگوں میں بہت سی رسومات اور بدعات مشہور تھیں،جن میں سے ایک غلط رسم اور عقیدہ یہ تھا کہ صفر کا مہینہ نحوست والا تصور کیا جاتا تھا،جس میں وہ نہ سفر کرتے تھے،اور نہ شادی وغیرہ کرتے تھے،اسلام نے اس نظریے اور عقیدہ کی تردید کردی،کہ کسی چیز کے اندر نحوست اور بدفالی نہیں ،بلکہ ہر قسم کے خیروشر کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے ،اور جہاں تک بات ہے سورۃ المزمل کی، تو قرآن کریم کی ہر آیت اور سورت میں شفاء ہے، بشرطیکہ شریعت مطہرہ کے بتائے ہوئے صحیح عقیدے کے مطابق ہو، اور لوگوں کا وضع کردہ نہ ہو۔
لہٰذا صورت مسئولہ میں صفر کے مہینے میں نحوست،بیماری یا مصیبت وغیرہ کا تصور کر کے سورۃ المزمل پڑھنا بدعت ہے،اس لیے کہ یہ لوگوں کا وضع کردہ ہے، شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں۔
لما في التنزیل:
«وماھم بضارین بہ من أحد إلا باذن اللہ».(سورۃ البقرۃ،الآیۃ:102).
وفیہ أیضاً:
«اللہ خالق کل شيئ وھو علی کل شيئ وکیل».(سورۃ الزمر، الآیۃ:62).
لما في مرقاۃ المفاتیح:
عن أبي ھریرۃ رضي اللہ عنہ قال:قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:˒˒لاعدوی،ولاطیرۃ،ولاھامۃ ولاصفر،وفر المجذوم کما تفر من الأسد˓˓‘‘.رواہ البخاري
قولہ:(ولاصفر) قال الشارح:کانت العرب یزعمون أنہ حیۃ في البطن،واللدغ الذي یجدہ الإنسان عند جوعہ من عضہ.قال أبوداؤد في سننہ،قال بقیۃ:سألت محمد بن راشد عنہ؟ قال:کانوا یتشائمون بدخول صفر،فقال النبي صلی اللہ علیہ وسلم :’’لاصفر‘‘ قال:وسمعت من یقول:ھو وجہ یأخذ في البطن یزعمون أنہ یعدي.قال أبو داؤد،وقال مالک: کان أھل الجاھلیۃ یحلون صفرا عاما ویحرمونہ عاما، فقال صلی اللہ علیہ وسلم :’’لاصفر‘‘.
قال النووي، قیل:کانت العرب تعتقد أن في البطن دابۃ تھیج عند الجوع، وربما قلت صاحبھا، وکانت العرب تراھا أعدی من الحرب، وھذا التفسیر ھو الصحیح، وبہ قال مطرف، وابن عبید وغیرھما، وقد ذکرہ مسلم عن جابر بن عبداللہ راوي الحدیث،فتعین اعتمادہ. قلت:الأظھر الجمع بین المعاني، فإنھا کلھا باطلۃ کما سبق نظیرہ. قال القاضي: ویحتمل أن یکون نفیا لما یتوھم أن شھر صفر تکثر فیہ الدواھي والفتن‘‘.(باب الفأل والطیرۃ،الفصل الأول:344/8،رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتویٰ نمبر:180/189