شینل کمپنی کے ذریعےکاروبار کی شرعی حیثیت

شینل کمپنی کے ذریعے کاروبار کی شرعی حیثیت

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام اس مسئلے کے بارے میں کہ چائنا کی ایک کمپنی جو شینل کے نام سے مشہور ہے، یہ کمپنی ایک مشین فروخت کرتی ہے، کمپنی کا دعویٰ ہے کہ اس مشین کے ذریعے سے170 بیماریوں کا علاج ہوتا ہے، اس کمپنی کے کاروبار کا طریقہ کچھ یوں ہے کہ ایک مشین ہے کمپنی والوں نے اس کی قیمت 9000 (نو ہزار)روپے مقرر کی ہے، گاہک اس مشین کو اس طرح خریدتا ہے کہ 5500  روپے نقد دیتا ہے اور 3500 روپے اس کے ذمہ قرض رہتا ہے، اس قرض کی ادائیگی کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں،اس آدمی کو کمپنی کا ممبر کہا جاتا ہے ، یہ آدمی اب دو اور آدمیوں کو مشین خریدنے کے لیے تیار کرے گا، جب وہ دو آدمی مشین خرید لیتے ہیں تو اس پہلے والے شخص کو (ممبر) دونوں میں سے ہر ایک کے بدلے (1040)روپے کمیشن دیا جاتا ہے جو دونوں کے (2080) روپے بنتے ہیں، چوں کہ یہ آدمی کمپنی کا مقروض ہوتا ہے تو کمپنی حساب وکتاب کرکے اس کے کمیشن سے قرض پورا کرتی ہے، پھر آگے یہ دو آدمی بھی الگ الگ دو آدمی تیار کرتے ہیں تو ان کو (1040) روپے فی آدمی ملتے ہیں ، لیکن پہلے والے صاحب (ممبر)کو بھی ان کے تیار کردہ دو آدمیوں سے فی آدمی (240)روپے کمیشن ملتا ہے، تو اس طرح ان چار آدمیوں کی نسبت سے (960) روپے پہلے والے ممبر کا کمیشن بن جاتا ہے اور اس طرح یہ ہر آدمی اپنے پیچھے دو آدمی لگائے گا، اب جب پہلے والے آدمی کے پیچھے(6) آدمی پورے ہو جائیں تو اب یہ پہلا آدمی ایک اور آدمی تیار کرے گا ، تو اس کے بدلے میں اس کو (800)روپے کمیشن دیا جائے گا، اب یہ دو آدمی اپنے پیچھے دو آدمی لگائیں گے اور اس طرح وہ دو، دو، دو، آدمیوں کو تیار کریں گے تو پہلے والے صاحب (ممبر) کو ہر ایک کے بدلے میں(800)روپلے ملیں گے او راس طرح لامتناہی سلسلہ چلتا رہے گا اور جب اس طرح یہ میزان (30) تک پہنچ جائے گا تو پہلے آدمی کو (20,000)روپے نقد اور ایک موٹر سائیکل، دو رات بڑے ہوٹل میں قیام او رکمپنی کی طرف سے لیگل ٹریننگ بطورانعام دیاجائے گااورجب آگےجاکر تعداد(300)یا کچھ اوپرہوجائے تو ایک موٹرکارجس کی قیمت دس (10,00,000) لاکھ ہے اور کچھ نقد انعام بھی ملے گا اورساتھ ساتھ کمیشن ہر پندرہ دن بعد اس کو ملتے رہیں گے،تو کیا اسلامی شریعت کی رو سے یہ کاروبار جائز ہے ،یا ناجائز؟ براہ کرم مسئلے کی وضاحت فرمائیں۔

جواب

اصل جواب سے قبل دو باتیں بطور تمہید ذکر کی جاتی ہیں:

پہلی بات:شریعتِ مطہرہ میں تجارت شرعی اصول وضوابط کے تحت صرف جائز ہی نہیں، بلکہ ایک مستحسن اور قابلِ تعریف اقدام ہے۔
آیاتِ کریمہ اور احادیثِ مبارکہ کے ذخیرے میں جابجا جائز خرید وفروخت اور کاروبار کی ترغیب دی گئی ہے اور احادیث میں حلال کمائی کو پاکیزہ رزق قرار دیا گیا ہے۔

قال تعالی: ''فإذا قضیت الصلوٰۃ فانتشروا في الأرض وابتغوا من فضل اﷲ''.(الجمعۃ:١٠)

وقال تعالی: ''یأیھا الذین آمنوا کلوا من طیبات مارزقنکم. الخ (البقرۃ:١٧٢)

وقال تعالی: ''یآیھا الذین آمنوا انفقوا من طیبات ماکسبتم''. الخ (البقرۃ:٢٦٧)

وقال تعالی: ''یآیھا الرسل کلوا من الطیبات واعملوا صالحا''. الخ (المؤمنون:٥١)

وقال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: ''إن أطیب ما أکل الرجل من کسبہ''. (نسائی:٢/٢١٠)

وقال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: ''ما أکل أحد طعاماً قطٖ خیرا من أن یأکل من عمل یدیہ، وإن نبی اﷲ داؤد کان یأکل من عمل یدیہ''.(رواہ البخاري، باب کسب الرجل وعملہ بیدیہ:١/٢٧٨، ط: نور محمد)

اسی طرح طے شدہ کمیشن لینا بھی شریعت میں مشروع ہے، لیکن عقدِ بیع ہو یا کمیشن کا معاملہ، ان جیسے عقود ومعاملات کے لیے شریعت نے کچھ خاص قوانین مقرر فرمائے ہیں، جن کی رعایت رکھنا انتہائی ضروری ہے، ان طے شدہ قوانین کے نہ ہونے کی وجہ سے یہ عقود مشروعیت کے دائرہ سے خارج ہو کر عدمِ جواز کے دائرہ میں داخل ہوتے ہیں۔

دوسری بات:”شینل”کمپنی کی ممبر سازی کا بنیادی مقصد کیا ہے؟ آیا مشین کی خرید وفروخت یا ممبر سازی سے کمیشن کا حصول؟ اگر مقصود مشین کی فروختگی ہے او رممبر سازی وکمیشن یہ طویل سلسلہ زیادہ سے زیادہ مشین فروخت کرنے میں کشش پیدا کرنے کی غرض سے ہے تو بظاہر یہ مقصد مشکل معلوم ہوتا ہے اس لیے کہ اس کمپنی میں ممبر بننے والے نہ تو عام طور پر بیمار ہوتے ہیں اور نہ یہ مشین عام طور پر طبی دوا خانوں اور مارکیٹوں میں دستیاب ہے کہ اس کے ذریعہ علاج کی سہولت عام ہو اور اگر مقصود مشین کا بیچنا نہیں جیسا کہ بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے، بلکہ ایک معتدبہ رقم کے ذریعہ کمیشن پر کمیشن حاصل کرنا مقصود ہے۔

اب اصل جواب ملاحظہ فرمائیں:”شینل”کمپنی کے طریقہ کار میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شرعی اعتبار سے اس کا روبار کی دو صورتیں ہیں:

۱۔ صرف مشین خریدنا۔

۲۔ مارکیٹنگ سسٹم میں شمولیت۔

پہلی صورت کے بارے میں یہ تفصیل ہے کہ کوئی شخص صرف مشین ہی خریدنا چاہتا ہے اور مارکیٹنگ سسٹم میں شامل نہیں ہونا چاہتا تو نقد کی صورت میں مشین خریدنا اس وقت جائزہے، جب مشین کی قیمت بازاری قیمت کے برابر یا معمولی کمی وبیشی (کہ ایسی کمی وبیشی تاجروں کے ہاں ہوتی رہتی ہے)کے ساتھ ہو اور اگر بازاری قیمت سے اس کی قیمت زیادہ ہو اور اتنی زیادہ ہو کہ عام طو رپر تاجر ایسی کمی وبیشی کے ساتھ خرید وفروخت نہیں کرتے اور گاہک کو دھوکہ دے کر مشین فروخت کی گئی تو گاہک کو بسبب دھوکہ دہی مشین واپس کرنے کا حق حاصل ہے۔

قال الحصکفي:''واعلم أنہ لارد بغبن فاحش ھو مالا یدخل تحت تقویم المقومین في ظاہر الراویۃ وبہ أفتي بضعھم مطلقا کما في القنیۃ، ثم رقم وقال: ویفتی بالرد رفقا بالناس، وعلیہ أکثر روایات المضاربۃ، وبہ یفتی، ثم رقم وقال: إن غرّہ أي غرّ المشتری البائع أو بالعکس أو غرہ الدلال فلہ الرد وإلا لا وبہ أفتی صدر الإسلام وغیرہ''.وقال ابن عابدین رحمہ اﷲ تعالی: (قولہ وبہ أفتی بعضہم مطلقا، أي سواء کان الغبن بسبب التغریر أو بدونہ۔۔۔ولکن نقل في الفتح أن الإمام علاؤ الدین السمر قندي ذکر في تحفۃ الفقہائ: أن أصحابنا یقولون في المغبون: أنہ لا یرد لکن ھذا في مغبون لم یغر، أما في مغبون غریکون لہ حق الرد استدلالا بمسألۃ المرابحۃ ١ھ أي بمسألۃ ما إذا خان في المرابحۃ فإن ذلک تغریر یثبت بہ الرد.

وقال ابن عابدین في ھذا القول المفصل: لم یبق لنا إلا قول واحد ھو المصرح بأنہ ظاہر الروایۃ وبأنہ المذھب وبأنہ المفتی بہ وبأنہ الصحیح. (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب البیوع، باب المرابحۃ والتولیۃ،ج: ٤/١٥٩، بیروت)

اور ادھار کی صورت میں مشین خریدنا دو شرطوں کے ساتھ جائز ہے:

(ا)۔۔۔ مشین کی قیمت بازار کی قیمت کے برابر ہو ( جس کی تفصیل پہلی صورت میں گزر گئی)۔

(ب)قیمت ادا کرنے کا وقت متعین ہو او راگر وقت متعین نہ ہو تو یہ معاملہ فاسد ہو گا۔

''أعلم أن البیع بأجل مجھول لا یجوز إجماعاً، سواء کانت الجھالۃ متقاربۃ کالحصاد والدیاس مثلاً أو متفاوتۃ کھبوب الریح وقدوم واحد من سفر''.(رد المحتار، کتاب البیوع، باب البیع الفاسد: ٤/١٢٠، بیروت)(٤)

''الدر المختار مع رد المحتار، کتاب البیوع، باب المرابحۃ والتولیۃ: ٥/١٤٢، سعید)

''ھذا، وقد أفتی المتأخرون من الحنفیۃ بإثبات الخیار لمن غبن فاحشا بتغریر البائع، مثل أن یقول المشتری قیمتہ کذا''. فاشترواہ فظھر أقل، فلہ الرد، فأما إذا لم یغرہ البائع فلا خیار لہ وبہ أفتی الصدر الشھید۔ رحمہ اﷲ. وکذلک یثبت الخیار للبائع المغرور''. (تکملۃ فتح الملھم، کتاب البیوع، باب من یخدع في البیع ١/٣٨٠، ٣٨١، دارالعلوم، کراتشي)

''وفي شرح الأشباء وشرحہ لحموی: قولہ: ''ومن ذلک أفتی المتأخرون بالرد بخیار الغبن الفاحش في ''التنویر'' لا رد بغبن فاحش علی ظاہر الروایۃ، ویفتی بالرد إن غرّہ، وفي الزیلعی قال البائع للمشتری: قیمتہ کذا فاشتراہ فظر أقل، فلہ الرد بحکم (وفي نسخہ بحکم) أنہ غرۃ وإن لم یقل ذلک فلا، وبہ أفتی الصدر الشھید''. ( شرح الحموي علی شرح الأشباہ والنظائر، الفن الأول في القواعد الکلیۃ، النوع الأول، القاعدۃ الرابعۃ، المشقۃ تجلب التیسیر: ١/٢٣٦، إدارۃ القرآن، کراتشي)

''قال: والبیع إلی النروز والمھرجان وصوم النصاری وفطر الیھود إذا لم یعرف المتبایعان ذلک فاسد لجھالۃ الأجل وھي مفضیۃ الی المنازعۃ البیع''. (الھدایۃ، کتاب البیوع: ٣/٦١، شرکۃ علمیۃ)

۲۔ مارکیٹنگ سسٹم میں شمولیت:یعنی گاہک کا اصل مقصد مشین خریدنا نہیں بلکہ کمیشن کے حصول کے لیے اس مخصوص طریقہ کار مارکیٹنگ سسٹم میں شامل ہو کر نفع کمانا مقصد ہے، اس صورت میں بھی اگر مشین کی قیمت بازاری قیمت سے زیادہ ہے تو مشین کا خریدنا اور اس کاروبار میں شامل ہونا واضح قمار ہے، اس سے اجتناب بہرصورت لازم ہے۔

اور اگر مشین کی قیمت بازاری قیمت کے برابر یا کم ہو تب بھی مشین مقصود نہ ہونے کی وجہ سے قمار اور جوا کے ساتھ مشابہ ضرور ہے۔
بظاہر کمپنی کا مقصد مشین فروخت کرنا نہیں بلکہ اصل مارکیٹنگ سسٹم ہے، اس لیے کہ مارکیٹنگ سسٹم نہ ہوتا تو ممبر در ممبر بنانے کی ترغیب او رکمیشن نہ دیا جاتا او رمشین کا درمیان میں ہونا ایک حیلہ ہے، اسی طرح یہ مشین عام طور پر بازار میں دست یاب نہیں، ممبر ہی کے ذریعہ خریدنا ممکن ہے، اس سے معلوم ہوا کہ مقصد مشین نہیں بلکہ مارکیٹنگ سسٹم ہے۔

اس کے علاوہ بھی اس میں کئی قباحتیں ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:

۱۔ شریعت میں تجارت کا مقصد ومنشأ ہر فرد کے لیے جائز ذریعہ معاش فراہم کرنا اور صحت مند معاشی حالات وجود میں لانا ہے، تاکہ معاشرہ سے فقر وفاقہ اور غربت کا خاتمہ ہو سکے اور لوٹ مار ، چوری ڈاکے، لوگوں کے سامنے دستِ سوال پھیلانے اور ظلم وجبر جیسے مظالم کی نحوست سے امت کو نجات مل سکے۔

قال العلامۃ ابن الھمام الحنفي رحمہ اﷲ تعالی:''وسبب شرعیتہ تعلق البقاء المعلوم فیہ ﷲ علی وجہ جمیل۔۔۔فلا بد من أن تدفعہ الحاجۃ إلی أن یشتری شیأا ویبتدیئ مزاولۃ شيئ، فلولم یشرع البیع سببا للتملیک في البدلین لا احتاج أن یؤخذ علی التغالب والمقاھرۃ أو السوال أو الشحاذۃ أو یصبرحتی یموت، وفي کل منھما مالا یخفی من الفساد،وفي الثانی من الذل والصغار ما لا یقدر علیہ کل أحد ویزری بصاحبہ،فکان في شرعیتہ بقاء المکلفین المحتاجین ودفع حاجتھم علی النظام الحسن''.(فتح القدر:٢/٢٤٧- ٢٤٨،کتاب البیوع)

''وحکمتہ نظام بقاء المعاش والعالم. (الدر المختار)

وفي الرد: (قولہ وحکمتہ الخ) حقہ أن یقول بقاء نظام المعاشاغ فإنہ سبحانہ وتعالی خلق العالم علی أتم نظام وأحکم أمر،معاشہ أحسن إحکامم،ولا یتم ذلک إلا بالبیع والشراء إذ لایقدر أحد أن یعمل لنفسہ کل ما یحتاجہ؛ لأنہ إذا اشتغل بحرث الأرض وبزر القمح وخدمتہ وحراستہ وحصدہ ودراستہ وتذریتہ وتنظیفہ وطحنہ وعجنہ لم یقدر علی أن یشتغل بیدہ ما یحتاج ذلک من آلات الحراثۃ والحصد ونحوہ فضلا عن اشتغالہ فیما یحتاجہ من ملبس ومسکن، فاضطر إلی شراء ذلک، ولولا الشراء لکان یأخذہ بالقھر أو بالسؤال إن أمکن وإلا قاتل صاحبہ علیہ، ولا یتم مع ذلک بقاء العالم''.(الدر المختار مع رد المحتار، کتاب البیوع: ٤/٥٠٦، سعید)

”شینل” کمپنی کا کاروبار، تجارت کے منشأ ومقصد سے عاری اور عاجز بلکہ معیشت پر۔۔ انتہائی منفی اثرات مرتب ہونے کا ذریعہ ہے۔

۲۔ ممبر ایجنٹ کو بڑی منصوبہ بندی کے تحت تشکیل دینا ، پھر بالواسطہ ممبر بننے پر پہلے ممبر ایجنٹ کو رقم ملنا شرعی تجارت کے مقاصد کے خلاف ہے۔

۳۔ ایک خرابی اس میں یہ ہے اگر کوئی شخص صرف ممبر بننا چاہے تو اس کی اجازت نہیں، یعنی آدمی اس وقت ممبر بن سکتا ہے جب مشین خریدلے، تو باصطلاح شریعتِ مطہرہ۔۔۔”صفقہ فی صفقہ”ہے جس سے حضو راکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔

۴۔ ممبر شپ اختیار کرکے ممبر سازی کی اسکیم میں شامل ہونا بین الاقوامی کمپنی کی مصنوعات کو مہنگے داموں فروخت کرنے کی ایک سرمایہ دارانہ سازش اور دھوکہ ہے، جس سے اجتناب ضروری ہے۔

''لما روی الإمام مسلم رحمہ اﷲ تعالی:عَنْ أَبِي ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: نَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ بَیْعِ الْحَصَاۃِ، وَعَنْ بَیْعِ الْغَرَرِ''. (الصحیح للإمام مسلم: ٢/٢، ط، قدیمی)

وقال الأستاذ وھبۃ الزحیلي: إن الشرط الفاسد في المعاوضات المالیۃ کالبیع والإجارۃ والقسمۃ والمزارعۃ والمساقاۃ والصلح عن المال یفسدھا.
لماروی عن النبی صلی اﷲ علیہ وسلم أنہ''نہی عن بیع وشرط، ولأن الشرط الفاسد یتنافي مع مبدأ التعادل الذي تقوم علیہ المبادلات المالیۃ.( الفقہ الإسلامي وأدلتہ: ٤/٣٠٥٤)

وقال في ''جامع الرموز'' ولا یجوز ویفسد البیع بشرط لا یقتضیہ العقد أي لا یجب بنفس البیع وفیہ أي ذلک الشرط نفع لأحدھما أي المتعاقدین أو نفع لمبیع یستحقہ أي یثبت لہ (جامع الرموز: ٢/٤١)

۴۔ عقدِ بیع اور عقدِ اجارہ، جہالتِ مدت کی وجہ سے بھی فاسد وناجائز ہو جاتے ہیں، یہاں بعض صورتوں میںجہالتِ مدت کی قباحت بھی ہے۔

''لما ذکر في العالمکیریۃ المعروفۃ بالہندیۃ:''وأما شرائط الصحۃ۔۔۔فمنھا معلومیۃ الأجل في البیع بثمن مؤجل فیفسد إن کان مجھولا''. (الفتاوی الھندیۃ: ٣/٣)

۵۔ اسی طرح مذکورہ کاروبار میں ملنے والا کمیشن سود کی تعریف میں داخل ہو کر حرام ٹھہرتا ہے۔

یہاں تحقیق سود دو اعتبار سے ہے:

۱۔ کاروبار کی اس نوعیت میں اول دو یا تین مراحل کے بعد کا کاروبار انسانی محنت سے خالی ہے، تو جو کمیشن بالواسطہ ممبران کا ممبر اول کو ملتا ہے وہ بغیر کسی عوض کے ملتا ہے، جس کے سود ہونے میں کوئی شبہ نہیں، کیوں کہ بلاعوض وبلامحنت ملنے والے نفع پر سود کی تعریف صادق آتی ہے۔

(صحیح مسلم، کتاب البیوع، باب بطلان بیع الحصاۃ: ٢/٢، قدیمي)

(الفقہ الإسلامي وأدلتہ، المطلب الثالث أولا، مذہب الحنفیۃ في الشروط الثاني الشرط الفاسد: ٤/٣٠٥٤، ٣٠٥٥، رشیدیۃ)

(جامع الرموز، کتاب البیوع، فصل البیع الفاسد: ٢/٤١، سعید)

(١٠)الفتاوی الہندیۃ، کتاب البیوع: ٣/٣، رشیدیۃ)

وفي الدر:ھو لغۃ مطلق الزیادۃ، وشرعا: فضل خال عن عوض بمعیار شرعي مشروط في المعاوضۃ.

وفي الشامیۃ:نعم ھذا یناسب تعریف الکنز بقولہ:فضل مال لا عوض في معاوضۃ مال بمال.( الدر مع الرد: ٥/١٦٨، ایچ ایم سعید)

۲۔ یہ ہے کہ اس قرض کی وجہ سے کمپنی کو بے شمار مالی فوائد حاصل ہوتے ہیں، حالاں کہ شریعت نے اس قرض کو سود ہونے کی بنا پر حرام قرار دیا ہے جس سے قرض خواہ کو نفع حاصل ہو اور اس پر سخت وعید اور ممانعت فرمائی ہے۔

لماروي عن علي أمیر المؤمنین مرفوعا ''کل قرض جر منفعۃ فھو ربا''.

عن جابر قال: لعن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم آکل الربوا، ومؤکلہ.

وقال علیہ السلام:الربا سبعون جزء ًا یسرھا أن ینکح الرجل أمہ. (المشکاۃ: ١/٢٤٤،٢٤٦) قدیمی)

جوئے کی حرمت پر دلائل درج ذیل ہیں:قال اﷲ تعالی:''إنما الخمر والمیسر والأنصاب والأزلام رجس من عمل الشیطن فاجتنبوہ لعلکم تفلحون''.(سورۃ المائدۃ:٩٠)

قال ابن کثیر رحمہ اﷲ في تفسیر ھذہ الآیۃ: یقول تعالی: ناھیا عبادہ المؤمنین عن تعاطی الخمر والمیسر وھو القمار۔۔۔۔۔۔ عن ابن عباس قال:المیسر ھو القمار، کانوا یتقامرون في الجاھلیۃ إلی محبيء الإسلام، فنھاھم اﷲ عن ھذہ الأخلاق القبیحۃ. (تفسیر ابن کثیر، سورۃ المائدۃ: آیۃ ٩٠، ص، ١٢٥،١٢٦، ج٢، دارالفیحاء، دارالسلام.)

قال العلامۃ الآلوسي البغدادي رحمہ اﷲ تعالی: ومن مفاسد المیسر أن فیہ أکل الأموال بالباطل وأنہ یدعو کثیرا من المقامرین إلی السرقۃ، وتلف النفس، وإضاعۃ العیال، وارتکاب الأمور القبیحۃ، والرزائل الشنیعۃ، والعداوۃ الکامنۃ، والظاہرۃ، وھذا أمر مشاھد لا ینکرہ إلا من أعماہ اﷲ تعالی وأصمہ. (تفسیر روح المعاني، سورۃ المائدۃ، آیۃ:٩٠،٢/١١٤،١١٥، دار إحیاء التراث)

خلاصہ :

لہٰذا مذکورہ کاروبار میں یا تو سود اور جوا دونوں پائے جاتے ہیں یا جو یا جوئے کے ساتھ مشابہت، اس لیے اس مخصوص طریقہ کار میں شامل ہو کر نفع کمانا نہ تو ممبر کے لیے جائز ہے نہ کمپنی کے لیے۔ نہ ہی کسی ممبر کے لیے انعام وصول کرنا۔ ان پر لازم ہے کہ مذکورہ کاروبار ختم کریں اور جو کچھ پہلے کیا ہے اس پر توبہ واستغفار کریں، اﷲ تعالیٰ ہمیں راہ راست پر آنے کی توفیق نصیب فرمائے۔۔(آمین).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی