شریعت میں مہر کی حیثیت

Darul Ifta mix

شریعت میں مہر کی حیثیت

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام ان مسائل کے سلسلے میں:
1.   شریعت میں مہر کی کیا حیثیت ہے؟ فرض؟ واجب؟ سنت یا مستحب؟
2.  مہر فاطمی132 تولہ چاندی کو بھی معیار بناسکتے ہیں؟ جب چاندی سستی تھی تب ہماری برادری مہر فاطمی ہی تجویز کرتی تھی لیکن اب چاندی اتنی مہنگی ہو گئی ہے کہ غریب کے لیے ناممکن ہے اب اگر برادری ایک خاص رقم کم از کم15500 روپے طے کرتی ہے تاکہ ہرکوئی آسانی سے ادا کر سکے ، ایسا کرنا کیا صحیح ہو گا؟
3.  مہر کی کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ مقدار شریعت میں کیا ہے؟
4.  منگنی، نکاح، ولیمہ، عقیقہ یا کسی او رموقع پر دولہا اور دلہن کو مختلف لوگ مختلف تحائف دیتے ہیں جن میں سونا چاندی بھی ہوتا ہے او رمعمولی چیزیں بھی ۔ اگر خدا نخواستہ لڑکی کو طلاق ہو جاتی ہے یا خلع وغیرہ تو ایسی صورت میں مذکورہ تحائف کس کس کے ہوں گے، کیا جانبین ایک دوسرے سے ان چیزوں کا تقاضہ کر سکتے ہیں ؟ ۔
5.  نکاح اور مہر کے بارے میں چند ضروری ہدایات شریعت تحریر فرما دیں تاکہ ہماری برادری کی آنے والی نسلیں شریعت کے مطابق ان امور کو سر انجام دے سکیں۔

جواب 

1.   واجب ہے۔
3,2۔ مہر فاطمی کو معیار بنانا مستحب ہے۔ کم سے کم مہر کی مقدار دس درہم (تقریباً دو تولہ ساڑھے سات ماشہ چاندی) ہے اور زیادہ کی کوئی مقدار نہیں ، البتہ بہتر یہ ہے کہ اتنا زیادہ مہرمقر رنہ ہو جو شوہر کے لیے دینا مشکل ہو جائے یا پھر اس زیادتی سے شہرت مقصود ہو ۔ مذکورہ رقم ( 15500 روپے) کو مہر بنانا صحیح ہے۔
4.  جو تحائف خاص دولہا یا پھر خاص دلہن کے ہوں تو وہ ان کی علیحدہ علیحدہ ملکیت شمار ہوں گے ، البتہ جو چیز مشترکہ ہو تو اس میں جو چیز عموماً عورتوں کے استعمال کی ہو وہ عورت لے لے اور جو مردوں کے استعمال کی ہو وہ مرد لے لے۔
5.  نکاح ایک عبادت اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی مبارک سنت ہے ۔ جس طرح دیگر عبادات میں ہم اسلامی تعلیمات کا خیال رکھتے ہیں ، اسی طرح نکاح میں بھی اسلامی تعلیمات کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے۔ اس خوشی کے مبارک موقع پر غیروں کے بجائے آپ صلی الله علیہ وسلم کی سنت اور سلف صالحین کی اتباع لازم ہے۔

الله جل شانہ کی ناراضگی سے بچا جائے اور سنت کے قریب تر ہونے کی کوشش کی جائے، فضول خرچی او ردکھلا وے سے اجتناب ہو، سادگی سے تقریب منعقد ہو، لہو ولعب اور غلط رسومات سے بچا جائے۔

رشتہ طے کرتے وقت دینی بنیاد پر ترجیح دینا مستحب ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے دینی بنیاد پر رشتہ قائم کرنے کی ترغیب دی ہے اور ایسے رشتہ کے لیے برکت کی دعا دی ہے۔

نیز مہر میں بھی اس بات کی کوشش کی جائے کہ مہر متوسط او رمعجل مقرر ہو ۔ ہمارے یہاں عموماً مہر میں دو کوتاہیاں دیکھنے میں آتی ہیں:

مہر مقرر کرتے وقت لڑکے کی حیثیت کا خیال نہیں رکھتے ، بلکہ زیادہ سے زیادہ مہر مقرر کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، جس سے بسااوقات تنازع او رجھگڑے کی شکل پیدا ہو جاتی ہے ۔ زیادہ سے زیادہ مہر مقرر کرنا کوئی فخر کی بات نہیں بلکہ ایک مسلمان کے لیے آپ صلی الله علیہ وسلم کا اسوہٴ حسنہ ہی باعث افتخار ہونا چاہیے اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی کسی بیوی اور کسی بیٹی کا مہر پانچ سو درہم( مہر فاطمی، تقریباً132 تولہ چاندی) سے زیادہ مقرر نہیں کیا۔

دوسری کوتاہی یہ ہوتی ہے کہ مہر ادا کرنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی جاتی، بلکہ بیویوں سے حق مہر معاف کرا دیا جاتا ہے ۔ واضح رہے کہ بیوی کا مہر بھی شوہر کے ذمے ایک طرح کا قرض ہے ۔ اگر بیوی خود اپنی مرضی اور خوشی سے کل مہر یا اس کا کچھ حصہ معاف کر دے توٹھیک ہے ، لیکن شروع ہی سے مہر کو واجب الادا نہ سمجھنا بڑی غلطی ہے ایسے شخص کے لیے احادیث میں بڑے سخت الفاظ وارد ہوئے ہیں ۔

لہٰذا ان کو تاہیوں سے اجتناب کیا جائے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق اس خوشی اور مبارک تقریب کا انعقاد کیا جائے۔  فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی