شرعی عذر کے بغیر بیوی کا طلاق کا مطالبہ کرنے کا حکم

Darul Ifta mix

شرعی عذر کے بغیر بیوی کا طلاق کا مطالبہ کرنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس   مسئلہ کے بارے میں کہ زید کا نکاح ہوا ،جس میں  اٹھارہ لاکھ روپے مہر مقرر کیا گیا  ، شادی کے چند  مہینے بعد لڑکی اپنے  والدین کے گھر بیٹھ گئی  اور شوہر کے گھر واپس آنے  پر راضی نہیں  ہے،  لڑکی کا مطالبہ ہے  کہ   اسے طلاق دی جائے ، بغیر کسی شرعی عذ ر کےنیز    لڑکے اوراس کے  گھر والو ں کے متعلق اسے کوئی شکا یت بھی  نہیں،       بس اسے طلاق چاہئے ۔

اب سوال یہ پوچھنا ہے  کہ طرفین آپس میں طے کر یں گےصلحاً ،لڑکا طلاق دےدے  اور  لڑکی اپنےمہر سے دستبردار ہوجائےگی،اگر معاملہ اس طرح حل ہوجائے تو کیا بعد میں لڑکی والے یا لڑکی خودقضاءً مہر کا تقاضا کر سکتی ہے یا نہیں؟کیا یہ خلع کی صورت ہوگی؟

جواب

صورت مسئولہ میں بغیر کسی شرعی عذر کےبیو ی کےلیےشوہرسے  طلاق کا مطالبہ کر نا   درست نہیں  ، اگر فریقین آپس  میں اس بات پرراضی ہوجائیں کہ شوہربیوی کو اس شرط  پر طلاق  دےکہ بیوی اپنے مہر سے دستبردارہو  جائے   تو یہ صورت طلاق علی المال کی ہے ،لہذا اس سے ایک طلاق بائن واقع ہوجائےگی،اور اس کےبعدبیوی کےلئےشوہرسےمہرکامطالبہ کرنادرست نہیں۔

 لما فی البناية " شرح الهداية":

"وإن طلقها على مال فقبلت وقع الطلاق، ولزمها المال،" لأن الزوج يستبد بالطلاق تنجيزا وتعليقا وقد علقه بقبولها والمرأة تملك التزام المال لولايتها على نفسها، وملك النكاح مما يجوز الاعتياض عنه وإن لم يكن مالا كالقصاص، وكان الطلاق بائنا لما بينا، ولأنه معاوضة المال بالنفس وقد ملك الزوج أحد البدلين فتملك هي الآخر وهو النفس تحقيقا للمساواة".(كتاب الطلاق ، با ب  الخلع : 7/179،180، ط: الحقا نية).

وفي الهداية:

"وإن طلقها على مال فقبلت وقع الطلاق ولزمها المال، وكان الطلاق بائنا، وأن بطل العوض في الخلع مثل أن يخالع المسلم على خمر أو خنزير أو ميتة فلا شيء للزوج والفرقة بائنة، وإن بطل العوض في الطلاق كان رجعيا، وما جاز أن يكون مهرا جاز أن يكون بدلا في الخلع فإن قالت له خالعني على ما في يدي فخالعها ولم يكن في يدها شيء فلا شيء له عليها وإن قالت خالعني".(كتاب الطلاق ، باب الخلع:2/383 ط امير همزة ).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتوی نمبر: 175/64