شادی کے موقع پر (لفافہ) نیوتہ دینے کا شرعی حکم

Darul Ifta mix

شادی کے موقع پر (لفافہ) نیوتہ دینے کا شرعی حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ معاشرے میں آج کل شادی بیاہ کےموقع پر جو کھانے کی دعوت دی جاتی ہے، اس میں لوگ ‘‘نیوتہ’’ لیتے ہیں،اگر نیوتہ نہ دیں تو بسا اوقات بات جھگڑے تک پہنچ جاتی ہے،یا وہ شخص معاشرے میں معیوب سمجھا جاتا ہے،اور لوگ اس پر طعنہ زنی کرتی ہے تو اس نیوتہ کا شرعی حکم کیا ہے؟

          نیز اگر کوئی شخص نیوتہ اس نیت سے دیتا ہے کہ وہ ہبہ ہے یا ہدیہ ،گفٹ ہے یا صدقہ وغیرہ کی نیت سے دیتا ہے ،تو کیا اس طرح نیوتہ دے سکتے ہیں؟براہِ کرم مطلع فرمائیں۔

جواب 

شادیوں کے موقع پر لفافہ لینے دینے کی جو رسم معاشرے میں رائج ہے، اسے ‘‘نیوتہ’’ کہا جاتا ہے ،اس کے بارے میں مندرجہ ذیل تفصیل ہے:

اگر شادی کے موقع پر تحفے تحائف اور لفافے وغیرہ رسم ورواج کے دباؤکی وجہ سے دئیے جاتے ہیں، یا اس کا عوض اور بدل واپس کرنے کو ضروری سمجھاجاتا ہے، واپس نہ کرنے کی وجہ سے ناراضگی کا اظہار کیا جاتا ہے، یا اضافہ کے ساتھ واپس کرنے کو لازم سمجھاجاتا ہے،یا اس کی وجہ سے بات لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی ہے، تو ان تمام صورتوں میں (نیوتہ)لینا،دینا جائز نہیں۔

          البتہ کسی قسم کے بدلے کی نیت نہ ہو، رسم ورواج کا دباؤ بھی نہ ہو، محض خوشی کے موقع کی مناسبت سے کچھ رقم بطور تعاون ہدیہ کی جارہی ہے، تو یہ جائز ہے اور اس میں مضائقہ نہیں، تاہم بہتر یہ ہے کہ ولیمے کے وقت دینے کے بجائے پہلے یا بعد میں ضرورت اور موقع کی مناسبت سے دے دی جائے ۔

          چنانچہ حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ ﴿ وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ رِبًا لِيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِنْدَ الله وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ الله فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ﴾(الروم:39).اس آیت مبارکہ کے ذیل میں رقم طراز ہیں کہ:

         ‘‘ مذکورہ رسم(نیوتہ) جو کہ عام خاندانوں اور اہلِ قرابت میں چلتی ہے، وہ یہ کہ عام طور پر کنبہ رشتہ کے لوگ جو کچھ دوسرے کو دیتے ہیں، اس پر نظر رکھتے ہیں کہ وہ بھی ہمارے وقت میں کچھ دے گا،بلکہ رسمی طور پر کچھ زیادہ دے گا،خصوصا نکاح،شادی وغیرہ کی تقریبات میں کچھ دیا لیا جاتا ہے، اس کی یہی حیثیت ہوتی ہے،لہٰذا ان کو یہ حق اس طرح دیا جائے کہ نہ ان پر احسان جتائے اور نہ کسی بدلے پر نظر رکھے اور جس نے بدلے کی نیت سے دیا تاکہ ان کا مال  دوسرے عزیز رشتہ دار کے مال میں شامل ہونے کے بعد کچھ زیادتی لے کر واپس آئے گا ،تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کا کوئی درجہ اور ثواب نہیں اور قرآن کریم نے اس زیادتی کو لفظ ‘‘ربوٰا’’ سے تعبیر کر کے اس کی قباحت کی طرف اشارہ کردیا کہ یہ ایک سود کی سی صورت ہوگئی’’۔

وفي روح المعاني:

﴿ وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ رِبًا لِيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِنْدَ اللَّهِ وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ﴾.(سورةالروم:39)

وعن النخعي أن الآية نزلت في قوم يعطون قراباتهم وإخوانهم على معنى نفعهم وتمويلهم والتفضيل عليهم وليزيدوا في أموالهم على جهة النفع لهم. وهي رواية عن إبن عباس فالمراد بالربا العطية التي تعطى للأقارب للزيادة في أموالهم.

(سورةالروم:39،20/463،ط:مؤسسة الرسالة).

وفي تفسیر المدارک:

﴿ وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ رِبًا لِيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِنْدَ اللَّهِ وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ﴾.

یرید وما أعطیتم أکلة الربا سن ربا لیربوا في أموالهم (فلا یربوا عندالله)فلا یزکوا عندالله تعالٰی ولایبارک فیه.

وقیل: هو من الربا الحلال أي وما تعطونه من الهدیة لتأخذوا أکثر منها فلا یربوا عندالله لأنکم لم تریدوا بذلک وجه الله تعالٰی.(سورة الروم:39،2/310،ط:قدیمي کتب خانه).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتوی نمبر: 174/171