سیّد ( سادات ) طلباء کرام کے لیے مدرسے سےوظیفہ لینے کا حکم

Darul Ifta mix

سیّد ( سادات ) طلباء کرام کے لیے مدرسے سےوظیفہ لینے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ سادات کے لیے مدرسےکی جانب سے ملنے والا  وظیفہ لینا جائز ہوگا یا نہیں ؟رہنمائی  فرمائیں ۔

جواب 

واضح رہے کہ جس مدرسے میں اموالِ زکوٰۃ کو دیگر مصارف میں خرچ کرنے سے پہلے اس کی تملیک کرائی  جاتی ہے،،یا طلبہ  سے زکوٰۃ کی وصولی  اور مدرسہ کے تمام  مصارف پر خرچ کرنے کی توکیل  (تحریری ،یا زبانی )لی جاتی ہے،اور پھر وہ رقم طلبہ  کی ضروریات ،وظیفہ وغیرہ پر خرچ کی جاتی ہے،تو اس صورت میں سادات کے لیے مدرسہ سے وظیفہ وصول کرنا درست ہے،بصورتِ دیگر جائز نہیں ۔

لما في الدر مع الرد:

وقدمنا أن الحيلة أن يتصدق على الفقير ثم يأمره بفعل هذه الاشياء، وهل له أن يخالف أمره؟ لم أره، والظاهر: نعم.

(قوله: أن الحيلة) أي في الدفع إلى هذه الأشياء مع صحة الزكاة.

(قوله ثم يأمره إلخ) ويكون له ثواب الزكاة وللفقير ثواب هذه القرب بحر وفي التعبير بثم إشارة إلى أنه لو أمره أولا لا يجزئ؛ لأنه يكون وكيلا عنه في ذلك وفيه نظر؛ لأن المعتبر نية الدافع ولذا جازت وإن سماها قرضا أو هبة في الأصح كما قدمناه فافهم.(قوله: والظاهر نعم) البحث لصاحب النهر وقال؛ لأنه مقتضى صحة التمليك قال الرحمتي: والظاهر أنه لا شبهة فيه؛ لأن ملكه إياه عن زكاة ماله وشرط عليه شرطا فاسدا والهبة والصدقة لا يفسدان بالشرط الفاسد.كتاب الزكاة،باب المصرف،3343،ط:رشيدية).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتوی نمبر: 174/187