کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ سودی کمائی سے موبائل پیکج لگانا اور اس کو استعمال کرنا شرعاً کیسا ہے؟
واضح رہے کہ سودی مال کمانا، اس میں کسی بھی قسم کا واسطہ ومعاون بننا، سود کھانا یا اسکو کسی بھی طریقے سے اپنے استعمال میں لانا قطعاً حرام ہے۔ نیزاللہ کےرسول ﷺ نے ایسے شخص پر لعنت فرمائی ہے۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سودی کمائی سےموبائل پیکج لگا کر اس کو استعمال کرنایا سودی رقم کو کسی بھی طرح سے اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں، بلکہ سودی مال کو بغیر ثواب کی نیت کے مستحقِ زکٰوۃ کو دینا ضروری ہے۔لما في التنزيل:﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾.(سورۃ آل عمران:130)وفيه أيضا:﴿أَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا﴾.(سورۃ البقرۃ:275)وفي روح المعاني:’’﴿الذين يأكلون الربوا﴾ أي: يأخذونه، فيعم سائر أنواع الانتفاع، والتعبير عنه بالأكل؛ لأنه معظم ما قصد به والربا في الأصل: الزيادة من قولهم: ربا الشئ يربوا، إذا زاد، وفى الشرع: عبارة عن فضل مال لا يقابله عوض في معارضة مال بمال‘‘.(سورۃ البقرۃ:275، ج:3، ص:474، مؤسسة الرسالة)وفي سنن أبي داود:حدثنا أحمد بن يونس حدثنا زهير: حدثنا سماك: حدثنى عبد الرحمن بن عبد الله بن مسعود عن أبيه رضي الله عنه قال:’’لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا وموكله وشاهده وكاتبه‘‘.(كتاب البيوع، باب في آكل الربا وموكله:677، رقم الحديث:3333، دار السلام)وفي حاشية ابن عابدين:’’لما فرغ من المرابحة... ذكر الربا؛ لأن في كل منهما زيادة إلا أن تلك الزيادة حلال، وهذه حرام‘‘.(كتاب البيوع، باب الربا: 416/7، رشيدية).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر:193/43