جوتا پہن کر نماز جنازہ پڑھنا، نماز جنازہ میں کب ہاتھ چھوڑنے چاہیئے،تصاویر والے کپڑوں میں نماز جنازہ پڑھنا

Darul Ifta mix

جوتا پہن کر نماز جنازہ پڑھنا، نماز جنازہ میں کب ہاتھ چھوڑنے چاہیئے،تصاویر والے کپڑوں میں نماز جنازہ پڑھنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسائل  کے بارے میں کہ:

(۱)   جوتے پہن کر نماز ِجنازہ  پڑھنے  کا کیا حکم ہے ؟

(۲)  جنازہ پڑھنے والے ہاتھ کب چھوڑیں؟ امام  کے سلام  پھیرنے کے وقت ، یا جب خود  دونوں  طرف سلام  پھیرے؟

(۳)  اگر نماز جنازہ پڑھنے والوں میں سے کسی کے کپڑوں پر تصویر بنی ہو  تو اس کی نماز جنازہ ادا ہوگی،یا  نہیں ؟راہنمائی فرمائیں۔

جواب 

(۱)      جوتے پہن کر نمازِ جنازہ  پڑھنے  کی صورت میں اگر زمین کا وہ حصّہ جس پر نمازی کھڑا  ہے پاک ہو،اور جوتو ں  کے اوپر اور نیچے والےدونوں  حصّے پاک ہوں،تو جوتے پہن کر نماز جنازہ پڑھنا درست ہے ، ورنہ نہیں ۔

(۲)     اس میں تین صورتیں ہیں: پہلی صورت یہ ہے کہ چوتھی تکبیر کے بعد  ہاتھ چھوڑ کر سلام پھیر دے،دوسری صورت یہ  ہے کہ  دائیں طرف  سلام پھیرتے وقت دایاں ہاتھ چھوڑ  دے،اور بائیں طرف سلام پھیرتے وقت  بایاں ہاتھ چھوڑ دے،اور تیسری صورت یہ ہے کہ دونوں  طرف سلام پھیرنے کے بعد دونوں ہاتھ چھوڑ دے،یہی تیسری صورت سب سے بہتر ہے،اور اکابر کا اسی پر عمل ہے۔

(۳)     جن کپڑوں میں واضح تصاویر ہوں ، جو دیکھنے والے کو غور و فکر کے بغیر نظر آجائیں، تو ایسے کپڑوں میں نماز جنازہ کراہت تحریمی کے ساتھ ادا ہوگی،اور اگر تصاویر  اتنی چھوٹی ہوں ،جو دیکھنے والے کو غور و فکر   کے بغیر نظر نہ آ ئیں،تو ایسے کپڑوں میں نماز جنازہ پڑھنا  جائز ہے ، اگرچہ یہ بھی بہتر نہیں ہے ۔

لما في الهندية:

ولو قام على النجاسة وفي رجليه نعلان أو جوربان لم تجز صلاته كذا في محيط السرخسي ولو خلع نعليه وقام عليهما جاز سواء كان ما يلي الأرض منه نجسا أو طاهرا إذا كان ما يلي القدم طاهرا. (كتاب الصلاة،الباب الثالث:في شروط الصلاة،الفصل الثاني في طهارة ما يستر به العورة وغيره،1119،ط:دارالفكر)

وفي حاشية الطحطاوي:

ولو افترش نعليه وقام عليهما جاز فلا يضر نجاسة ما تحتهما لكن لا بد من طهارة نعليه مما يلي الرجل لا مما يلي الأرض. (باب أحكام الجنائز،فصل الصلاةعليه :582،ط:قديمي)

وفي الدرمع الرد:

(وهو سنة قيام له قرار فيه ذكر مسنون فيضع حالة الثناء،

(قوله فيه ذكر مسنون) أي مشروع فرضا كان أو واجبا أو سنة.(كتاب الصلاة،فصل وإذا أراد الشروع في الصلاة،2230،ط:رشيدية). فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتوی نمبر:170/180,182