کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کسی معتمد فتاوی میں یہ مسئلہ نظر سے گزرا کہ ’’بلا عذربیٹھ کر اذان دینا مکروہ تحریمی ہے، اور ایسی اذان کا اعادہ مستحب ہے‘‘، جس کی بناء پر بندہ کو دو اشکال وارد ہوئے، ایک یہ کہ جب بلا عذر بیٹھ کر اذان دینا مکروہ تحریمی ہے، تو پھر اعادہ واجب ہونا چاہئےنہ کہ مستحب، دوسرا اشکال یہ ہے کہ کیا خلاف سنت کام کو مکروہ تحریمی کا درجہ دیا جاسکتا ہے؟ امید ہے کہ جواب دے کر تشفی فرمائیں گے۔
واضح رہے کہ اذان کھڑے ہوکر ادا کرنا ہی سنت ہے، لہذا اگر کسی نے بلا عذر بیٹھ کر اذان دی تو یہ مکروہ تحریمی ہے، ایسی اذان کا اعادہ مستحب ہی ہے نہ کہ واجب، کیونکہ کراہت تحریمی اعادہ کو مستلزم نہیں ،اور فتاوی شامی میں بھی استحباب اعادہ کے قول کو ترجیح دی گئی ہے، لہذا اگر کسی نے اس صورت میں دوبارہ اذان نہیں دی، تب بھی کوئی حرج نہیں۔
نیز اگر سنت مؤکدہ ایسی ہو جو مہتم بالشان ہو، جیسے کھڑے ہوکر اذان دینا، کہ اذان کی مشروعیت اسی طرح ہوئی ہے، اور آپ علیہ السلام کے دور سے لے کر آج تک اسی پر تعامل ہے، تو اس کے خلاف کو مکروہ تحریمی کا درجہ دیا جاتا ہے، اسی لئے بیٹھ کر اذان دینے کو مکروہ تحریمی کہا گیا ہے۔لما في الشامية:’’(ويكره) أذان جنب... (وقاعد إلا إذا أذن لنفسه) وراكب إلا لمسافر (ويعاد أذان جنب) ندبا، وقيل: وجوبا‘‘.’’قوله: (ويعاد أذان جنب...إلخ) زاد ((القهستاني)): والفاجر والراكب والقاعد والماشي، والمنحرف عن القبلة. وعلل الوجوب في الكل بأنه غير معتد به، والندب بأنه معتد به إلا أنه ناقص، قال: وهو الأصح‘‘.(كتاب الصلاة، باب الأذان: 75/2، رشيدية)وفي فتح القدير:’’الكراهة وهي المذكورة فيه لاتستلزم الإعادة كأذان القاعد والراكب في المصر يكره ولا إعادة‘‘.(كتاب الصلاة، باب الأذان: 258/1،حنفية كوئتة)وفي الرد:’’أن ترك السنة المؤكدة مكروه تحريما لجعله قريبا من الحرام؛والمراد بها سنن الهدي كالجماعة والأذان والإقامة‘‘.(كتاب الحظر والإباحة: 558/9، رشيدية)وفيه أيضا:’’السنة إن كانت مؤكدة قوية لايبعد كون تركها مكروه تحريما،وإن كانت غير مؤكدة فتركها مكروه تنزيها‘‘.(كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها: 512/2،رشيدية). فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر:194/04