کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں نے شادی کی پہلی رات اپنی بیوی کو طلاق کے اختیارات دیے، لیکن کتنی طلاقوں کے اختیارات دیے یا جب چاہے کے الفاظ نہ تو مجھے یاد ہے اور نہ ہی میری بیوی کویاد ہے، میں نے اپنی مالی حالات کی وجہ سے اپنی بیوی کو کہا کہ آپ اپنے میکے جا کے جھوٹ بولیں کہ میں نے آپ کو طلاق دے دی ہے، جب کہ میں نے نہیں دی تھی، پھر فتوی لیا کہ یہ طلاق نہیں ہوئی، کچھ وقت گزرنے کے بعد میں نےخود اپنی بیوی سے طلاق تفویض لکھوائےاور اسے کہا کہ نہ آپ یہ الفاظ زبان سے دہرائیں اور نہ نیت کریں اور اس میں میں نے جب چاہے کہ الفاظ بھی لکھوائے ،جب کہ میری بیوی نے نہ ہی زبان سے دہرائے اور نہ ہی طلاق کے اختیارات استعمال کرنے کی نیت کی ،پھر فتوی لیا کہ طلاق نہیں ہوئی، پھر کچھ دنوں بعد میں نے اپنے دل ہی دل میں ایک طلاق رجعی دی اور اپنی بیوی کو بتا دیا کہ میں نے آپ کو ایک طلاق رجعی دی ہے، پھر ہم نے رجعت کر لی،پھر کچھ وقت بعد میں نے اپنی بیوی کو ایک اور طلاق بائن دل ہی دل میں دی اور اپنی بیوی کو بتا یاکہ میں نے اسے ایک اور طلاق بائن دی ہے، اس بات پر فتوی لیا کہ نئے حق مہر کے ساتھ آپ تجدید نکاح کر سکتے ہیں اور ہم نے تجدید نکاح کر لیا، لیکن اب میرے دل سے وسوسے نہیں جا رہے ہیں کہ کہیں میں شرعاً گناہ گار تونہیں ہو رہا، براہ کرم شرعی حکم کے مطابق رہنمائی فرمائیں۔
واضح رہے کہ طلاق کے واقع ہونے کے لئے طلاق کے الفاظ بولنا یا لکھنا ضروری ہے، الفاظ بولے بغیر صرف دل میں سوچنے یا طلاق کے وساوس آنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی، لیکن جیسے ہی آپ زبان سے ان الفاظ کو ادا کرینگے تو طلاق واقع ہو جائے گی، لہذاصورت مسئولہ میں آپ نے بیوی کو طلاق رجعی اور اس کے بعد طلاق بائن کی اطلاع دینے کی وجہ سے طلاق رجعی اور طلاق بائن واقع ہوگئی ہیں، آئندہ آپ کے پاس ایک طلاق کا اختیار باقی ہے، لہذا طلاق دینے سے آپ گناہ گار تو نہیں ہوئے، لیکن نکاح کرنے کے بعد جب تک واقعی کوئی دشواری نہ ہو بیوی کو طلاق نہیں دینی چاہیے، خصوصاًجب کہ نباہ کی صورت موجود ہو، توبلا کسی شرعی وجہ کے طلاق دینا شرعاً ناپسند اور اللہ تعالی کے نزدیک مبغوض چیز ہے، اس لئے آئندہ کے لیے احتیاط فرمائیں، زوجین کو چاہیے ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں اور اللہ کی طرف رجوع کریں۔لمافي سنن أبي داود:عن أبى هريرة عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: إن الله تجاوز لأمتى عما لم تتكلم به أو تعمل به وبما حدثت به أنفسها.(كتاب الطلاق، باب فى الوسوسة بالطلاق، ح:2209، ص:447، دار السلام)وفي رد المحتار:’’(وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر، وأراد اللفظ ولو حكما ليدخل الكتابة المتسبينة وإشارة الاخرس وإشارة إلى العدد بالاصابع في قوله أنت طالق هكذا كما سيأتي‘‘.(كتاب الطلاق: 420/4، رشيدية)وفي حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح:’’لو أجرى الطلاق على قلبه وحرك لسانه من غير تلفظ يسمع لا يقع‘‘.(كتاب الصلاة، باب شروط الصلاة و أركانها، ص:219، رشيدية)وفي المبسوط للسرخسي:’’أن من أقر بطلاق سابق يكون ذلك إيقاعا منه في الحال؛ لأن من ضرورة الاستناد الوقوع في الحال، وهو مالك للإيقاع غير مالك للإسناد‘‘.(كتاب الطلاق، باب من الطلاق: 155/3، الغفاريةكوئته)وفي سنن أبي داود:عن ابن عمر عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: ’’أبغض الحلال إلى الله عزوجل الطلاق‘‘.(كتاب الطلاق، باب فى كراهية الطلاق، ح:2178، ص:440، دار السلام)لما في التنوير مع الدر:’’(الأصح حظره)(أي منعه)(إلا لحاجة) كريبة وكبر‘‘.وتحته في الرد:’’وأما الطلاق فإن الأصل فيه الحظر، بمعنى أنه محظور إلا لعارض يبيحه، وهو معنى قولهم الأصل فيه الحظر والإباحة للحاجة إلى الخلاص، فإذا كان بلا سبب أصلا لم يكن فيه حاجة إلى الخلاص بل يكون حمقا وسفاهة رأي ومجرد كفران النعمة وإخلاص الإيذاء بها وبأهلها وأولادها‘‘.(كتاب الطلاق:4 /415،414، رشيدية).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر:193/289