بینک کے کاغذات کا کہہ کر طلاق نامہ پر دستخط کروانے سے طلاق

Darul Ifta mix

بینک کے کاغذات کا کہہ کر طلاق نامہ پر دستخط کروانے سے طلاق

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ میری  عمر  پچھتر  سا ل ہے ، میر اکوئی بیٹا نہیں تھا، اور دو بیٹیاں تھی ، جن کی شادی کرکے اپنے گھر بھیج دیا تھا ، میرا خیال رکھنے والا کوئی نہیں تھا ، جس کی وجہ سے دوسری شادی کرنا پڑی ، کیونکہ پہلی بیوی  کا انتقال ہو گیا تھا ، میں شادی کرکے ہنسی خوشی اپنی زندگی گزار رہا تھا ، میرا مزاج تھوڑا سخت ہے ، اسی وجہ سے میری گھر میں  بیوی سے لڑائی ہوئی اور میں اپنی بیٹی اور داماد کے گھر چلا گیا ، غصے میں بھی تھا، اور پریشان بھی تھا ، میر ا دماغ بالکل کام نہیں کررہا تھا ، تو میرے داماد نے اسی بات کا فائدہ اٹھایا اور مجھے بینک کے کاغذات کہہ کر میرا انگوٹھا لگوایا ، اور دستخط کروایا ، مجھے تو پڑھنا لکھنا بالکل نہیں  آتا  ، اور مجھے کہا گیا  کہ آپ کو دم کے لیے حیدرآباد لے جا رہے ہیں ، اور مجھے تھوڑا  آگے تھوڑا آگے کہہ کر پنڈی لے گئے ، اور پنڈی والی بیٹی نے  مجھے کمرے میں بند کردیا ، کہ آپ کراچی واپس نہیں جائیں گے، میں ان سے لڑ کر  جب واپس کراچی پہنچا اور اپنے گھر آیا  تو مجھے پتا چلا کہ میں تو طلاق دے چکا ہوں ، میں تو بہت پریشان  ہوگای اور بہت رو رو کر ان سے معافی مانگ کر کہا کہ مجھے تو پتا ہی نہیں طلاق کا اور نہ میں دینا چاہتا تھا ۔

مفتی صاحب آپ مہربانی فرا کر میری اس پریشانی کا کوئی حل نکالیں تاکہ میں اپنی کچھ زندگی کو رہ گئی ہے وہ سکون سے اپنے گھر میں گزار سکوں ، آپ کا ہمیشہ شکر گزار رہوں گا ، اور دعاؤں میں  ہمیشہ یا د رکھوں گا۔

جواب 

اگر صورت  مسئولہ  مبنی  بر حقیقت ہےاور  اس میں  کسی قسم  کی  غلط بیانی  سےکام نہیں لیا گیا ہے،تو چونکہ آپ کو  اس طلاق نامہ کے متعلق نہ تو علم  تھا اور نہ ہی آپ کو  پڑھ کر سنایا گیا تھا،بلکہ آپ کو بینک کے کاغذات  بتلا کر  آپ سے دستخط  اور انگوٹھا  لگوائے گئے ،تو اس سے آپ کی بیوی کو  کوئی طلاق واقع  نہیں ہوئی اور بدستور  وہ آپ کی زوجیت میں باقی ہے۔

لما في رد المحتار:

"وكذا كل كتاب لم يكتبه بخطه ولم يمله بنفسه لا يقع الطلاق ما لم يقر أنه كتابه اهـ ملخصا."(كتابالطلاق،مطلب في الطلاق با لكتابة:4/442،ط:رشيدية)

وفي الهندية:

"وكذلك كل كتاب لم يكتبه بخطه ولم يمله بنفسه لا يقع به الطلاق إذا لم يقر أنه كتابه كذا في المحيط والله أعلم بالصواب."(کتاب الطلاق ،فصل السادس في الطلاق با لكتابة:1/446،ط:دار الفكر)

وفي التاتارخانية:

"وكذلك كل كتاب لم يكتبه بخطه ولم يمله بنفسه لا يقع به الطلاق إذا لم يقر أنه كتابه ."(كتاب الطلاق،فصل إيقاء الطلاق بالكتاب:4/532,ط:فاروقية). فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتوی نمبر: 174/300